GHAG

مجوزہ آئینی ترامیم اور عدلیہ کا متنازعہ کردار

مجوزہ 26ویں آئینی ترمیم کیا ہے؟

پاکستان کے آئین میں مجوزہ 26 ویں آئینی ترمیم کیا ہے یہ جاننا بہت ضروری ہے۔ اس مجوزی ترمیم میں وفاقی آئینی عدالت کا قیام بھی شامل ہے جو موجودہ سپریم کورٹ سے الگ ہوگی۔اس کے نتیجے میں پاکستان میں دو چیف جسٹس ہوں گے۔ ایک سپریم کورٹ کا اور دوسرا وفاقی آئینی عدالت کا ہوگا۔

 کئی دہائیوں سے پاکستان کے جوڈیشل سسٹم کو زیر التواء کیسوں اور فیصلوں میں شفافیت اور تاخیر کا مسئلہ درپیش ہے۔اس کی وجہ سے عام شخص مایوسی کا شکار ہے۔ تشکیل شدہ وفاقی آئینی عدالت کے ذریعے موجودہ سپریم کورٹ کو سول اور فوجداری مقدمات سے فراغت مل جائیگی اور وہ  قانون سازی کی تشریح بشمول عدالتی جائزے، قوانین کی تشریح اور بین الصوبائی مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔

بات اگر آئینی عدالتوں کے حوالے سے کی جائے تو کئی ممالک میں آئینی عدالتیں قائم ہیں جن میں سے کچھ کی مثالیں یہاں دی جا رہی ہیں۔

کیا دنیا میں آئینی عدالتیں موجود ہیں؟

جرمنی کی بات کی جائے تو وفاقی آئینی عدالت قوانین کی آئینی حیثیت پر فیصلے کرتی ہے اور آئینی نظام کی حفاظت کرتی ہے۔ اسی طرح جنوبی افریقہ میں آئینی عدالت آئین، انسانی حقوق، اور حکومت کے اختیارات پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ آسٹریا میں آئینی عدالت آئینی تنازعات کو نمٹاتی ہے اور قوانین کی آئین کے مطابق عملداری کو یقینی بناتی ہے۔ روس میں آئینی عدالت آئین کی تشریح کرتی ہے اور حکومت کی شاخوں کے درمیان تنازعات کو حل کرتی ہے۔ترکی میں آئینی عدالت قوانین اور سرکاری اداروں کا جائزہ لیتی ہے تاکہ آئین کی تعمیل کو یقینی بنایا جاسکے۔ سپین میں آئینی عدالت آئینی مسائل سے نمٹتی ہے، بشمول قوانین کا جائزہ لینا اور حکومت کے اداروں کے درمیان تنازعات کو حل کرنا ہے۔ جنوبی کوریا میں آئینی عدالت قوانین، مواخذے، اور آئینی معاملات کا جائزہ لیتی ہے۔ کولمبیا میں آئینی عدالت بنیادی حقوق اور آئینی نظام کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ انڈونیشیا میں آئینی عدالت قوانین کی آئین کے مطابق عملداری اور انتخابی تنازعات کا جائزہ لیتی ہے۔

آئینی ترمیمی بل پر قانونی ماہرین کی رائے

قانونی ماہرین کے مطابق آئینی ترمیمی بل کے تحت تشخیص کی ضرورت ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ میں 60 ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں، جن میں زیادہ تر عام قانونی چارہ جوئی کے مقدمات ہیں۔ مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ سیاسی مقدمات سب سے زیادہ عدلیہ کی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے انڈیکس میں پاکستان 130ویں نمبر پر ہے، جو انصاف کے نظام کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔

آئینی عدالت کا قیام کیوں ضروری ہے؟

نظام عدل میں ترامیم کی ضرورت ہے جس کے تحت ایک علیحدہ آئینی عدالت قائم کی جائے تاکہ وہ آئینی معاملات کو نمٹا سکے اور مفاد عامہ کے مقدمات پر زیادہ وقت دیا جاسکے – گزشتہ کچھ عرصہ سے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ مدعیوں کو اپنی سماعتوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے جبکہ سپریم کورٹ سیاسی اور آئینی کیسز کی وجہ سے ان کے کیسز کو نہیں سن پا رہی۔

اکثر دیوانی اور فوجداری مقدمات میں دیکھا گیا ہے کہ متاثرین اپنی سزائیں تک پوری کر لیتے ہیں اور اس کے بعد ان کی اپیلیں سپریم کورٹ میں سماعت کیلئے مقرر کی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک علیحدہ آئینی عدالت قائم کی جائے جو صرف ترمیم میں تجویز کردہ آئینی معاملات کو سنیں ۔ اس طرح کرنے سے سپریم کورٹ دیوانی اور فوجداری مقدمات کو سن سکے گی جس سے عام آدمی کو ریلیف حاصل ہوگا۔عوامی حلقوں میں یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے اور ججوں کی تعداد میں اضافہ بھی کیا جائے۔

سپریم کورٹ میں ججوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ بیک لاگ کو دور کرنے کی ضرورت ہے جس میں ججوں کا ایک پینل چیف جسٹس کے تقرر کے لیے منتخب کرے گا۔ قانونی حلقوں کے مطابق چیف جسٹس کی تقرری کے لئے سینئر ترین جج کو چیف جسٹس مقرر کرنا ضروری نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر کو چیف جسٹس منتخب کیا جائے، جیسے آرمی چیف کی تقرری کا طریقہ کار ہے۔

مندرجہ بالا حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اس ترمیم کے فوائد سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ جیسے کہ پہلے بھی بات کی گئی ہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے کردار کی بات کی جائے تو سپریم کورٹ اکثر سیاسی مقدمات میں الجھ جاتی ہے اور اس کے فیصلے سول اور فوجداری اپیلوں تک محدود رہ جاتے ہیں جبکہ عدالت کو التوا میں پڑے دیوانی مقدمات کو حل کرنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ انصاف ہر فرد تک پہنچ سکے۔

آئینی ترمیمی پیکج کا مقصد

آئینی ترمیمی پیکج کا مقصد یہ ہے کہ یہ پاکستان میں انصاف کے نظام کو بہتر بنانے اور جمہوری اقدار کو مضبوط کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے ساتھ ہی عدالتی نظام میں شفافیت، ہمواری، اور صوبائی نمائندگی کے ذریعے پاکستان ایک منصفانہ اور مؤثر عدالتی عمل کی طرف بڑھ سکتا ہے۔

آئینی تشریح کی اہمیت یہ ہے کہ آئینی تشریح حتمیت اور یکسانیت فراہم کرتی ہے، مختلف عدالتوں کے متضاد فیصلوں سے بچاؤ کرتی ہے اور آئینی امور میں مہارت حاصل کرنے سے مستقل مزاجی اور علمی احکام کو فروغ ملتا ہے۔

مجوزہ آئینی ترامیم کی بات کی جائے تو مجوزہ ترامیم پاکستان کی آئینی تاریخ میں ایک اہم مرحلہ ہے اور ان ترامیم کی حمایت تمام سیاسی مفادات کو نظرانداز کرکے عوامی مفاد میں کی جانی چاہیے، آئینی ترمیم کا عمل مشکل اور وقت طلب ہوتا ہے، مگر یہ عوامی مفاد کے لیے ضروری ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts