ایڈیٹوریل
اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے ایک بار پھر ملٹری کورٹس میں سویلین کی ٹرائل سے متعلق معاملات پر متضاد قسم کے ریمارکس سامنے آرہے ہیں جس کے باعث متعلقہ حلقوں میں پھر سے ابہام کا ماحول پیدا ہوگیا ہے ۔ اب تک معزز ججز کی طرف سے جو ریمارکس سامنے آئے ہیں ان کو دیکھ کر تو لگتا یہ ہے کہ متعلقہ سول ادارے اور حکام یہ ثابت کرنے میں بوجوہ ناکام دکھائی دے رہے ہیں کہ ملٹری تنصیبات پر 9 مئی کے واقعات کی طرح ہونے والے حملہ آوروں کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہوسکتا ہے۔ آئینی اور عدالتی اختیار کار کافی واضح ہے اور اسی تناظر میں ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک آئینی بینچ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا تاہم یہ بات قابل افسوس ہے کہ اب بھی کافی کنفیوژن موجود ہے اور اس کی بنیادی وجہ بعض ججز کا “انسانی حقوق” کے بیانیہ کے تناظر میں اٹھائے جانے والے وہ ریمارکس یا سوالات ہیں جن کو مین سٹریم میڈیا اور پی ٹی آئی کے رہنما غیرضروری طور پر متنازعہ بنانے کے رویے پر گامزن ہیں اور اسے ایک آئینی معاملے سے زیادہ سیاسی ایشو بنایا گیا ہے۔
ملٹری اسٹبلشمنٹ نے رحمدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جن پی ٹی آئی مجرموں کو ان کی معافی کی درخواستوں کی بنیاد پر رہا کرنے کا اقدام اٹھایا تھا مذکورہ پارٹی نے اسے بھی پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کی نذر کرکے محاذ آرائی پر مشتمل اپنی روایات کو قائم رکھا اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے رہائی پانے والے بعض کارکنوں سے ایک پروپیگنڈا مہم کے تحت ایسے بیانات ریکارڈ کرا کر وائرل کئے جن میں وہ معافی کی درخواستوں کے برعکس 9 مئی کے حملوں کی ذمہ داری لینے یا مذمت کرنے کی بجائے “دفاع” کرتے نظر آتے ہیں۔ اس رویے نے تلخی اور کشیدگی میں مزید اضافہ کیا اور رہی سہی کسر جاری مذاکرات سے متعلق غیر ضروری بیانات نے پوری کردی ہے۔
اس پس منظر میں کہا جاسکتا ہے کہ مفاہمت کے امکانات ایک بار پھر معدوم ہوکر رہ گئے ہیں اور اس تلخی میں مزید اضافے کا راستہ اس وقت ہموار ہوا جب پی ٹی آئی نے مریم نواز اور متحدہ عرب امارات کے سربراہ کی ایک عام تصویر کو ایک پروپیگنڈا ٹول کے طور پر نتائج کا ادراک کئے بغیر وائرل کیا جس پر یو اے ای حکومت کا شدید ردعمل سامنے آیا۔
اس تمام منظر نامے میں اعلیٰ عدلیہ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قانونی اور آئینی معاملات کو ایک طے شدہ فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے ڈیل کریں اور مقبول عام سیاسی ٹچ دینے سے گریز کا راستہ اختیار کیا جائے۔
(10جنوری 2025)