GHAG

آپریشن عزم استحکام پر ابہام پیدا کرنے کی کوششیں

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ خیبرپختونخوا کی حکومت اور دو تین سیاسی جماعتوں کے علاوہ بعض صحافتی حلقوں نے اس کے باوجود مجوزہ آپریشن عزم استحکام کو متنازعہ بنانے کی عملی کوششیں کرتے ہوئے عوام میں اس طرح کا تاثر قائم کیا جیسے اس فیصلے یا اقدام کے نتیجے میں ماضی کی فوجی آپریشنز کی طرح عوام کو بے گھر یا علاقہ بدر کرنے کی کوئی حکمت عملی پیدا کی جائے گی ۔ صوبائی حکومت یا صوبے کی برسر اقتدار پارٹی نے قبائلی جرگے کے نام پر پشاور میں ایک ایونٹ کا انعقاد کیا جس میں نہ صرف یہ کہ نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے متفقہ فیصلے کی مخالفت کی گئی بلکہ بعض ایسے مطالبات بھی پیش جن پر عمل درآمد کرانا وفاقی حکومت یا متعلقہ سیکورٹی اداروں کے لیے زمینی حقائق کے تناظر میں ممکن ہی نہیں ہے ۔ تحریک انصاف کی صوبائی کا موقف اپیکس کمیٹی میں ایک ہوتا ہے جبکہ عوام اور کارکنوں میں بلکل الگ ہوتا ہے ۔ اس پارٹی کی ” مجبوریوں” کا متعلقہ اداروں اور حلقوں کو احساس ہے کیونکہ اس پر اپنے قید بانی چیئرمین کے دباؤ کے علاوہ کالعدم گروپوں کے ساتھ اپنی ہمدردی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے جبکہ اس کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان سیاسی کشیدگی بھی اس کا ایک فیکٹر ہے ۔ تاہم اس تلخ حقیقت کو کیسے نظر انداز کیا جائے کہ صوبے میں سیکورٹی کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے اور صوبائی حکومت اپنی ذمہ داریوں سے غافل دکھائی دے رہی ہے ۔ ایسے میں اگر فورسز کی جانب سے کارروائیاں نہ کی جائیں تو بدامنی کی بڑھتی لہر پر قابو کیسے ہو اس کا کوئی موثر جواب اور لائحہ عمل اس کے پاس نہیں ہیں ۔
دوسری جانب جے یو آئی ایک طرف تو چیختی چلی آرہی ہے کہ آدھے خیبرپختونخوا پر طالبان وغیرہ قبضہ کرنے کی تیاری اور کوشش میں ہے تاہم یہ پارٹی آپریشن عزم استحکام کی کھل کر مخالفت کررہی ہے اور مولانا فضل الرحمان نے پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے اس تحریک انصاف کے ساتھ بھی ہاتھ ملادیا ہے جس کے لیڈر ماضی میں مولانا فضل الرحمان کی مخالفت تو ایک طرف تذلیل سے بھی گریز نہیں کررہے تھے ۔ یہی حال اے این پی اور بعض دیگر پارٹیوں کی بھی ہے ۔ اس ضمن میں اعلیٰ عسکری حکام کا جو موقف سامنے آتا دکھائی دے رہا ہے وہ یہ کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی بدامنی ناقابل برداشت ہوگئی ہے اور فورسز پہلے ہی سے مختلف علاقوں میں انٹلیجنس بیسڈ آپریشنز کرتی آرہی ہیں تاہم حکام اس قسم کی اطلاعات ، تاثر یا پروپیگنڈا کو مسترد کرتے ہیں کہ مجوزہ آپریشن کے نتیجے میں عوام کو ماضی کی طرح اپنے علاقوں سے بے دخل ہونا پڑے گا ۔ حکام کے مطابق یہ جاری کارروائیوں کی توسیع اور ان میں تیزی لانے پر مشتمل ایک وسیع البنیاد فارمولے کے تحت تشکیل دیا جائے گا جس کی بنیاد نیشنل ایکشن پلان پر رکھی گئی ہے اور اس کا دائرہ کار محض فورسز کی کارروائیوں تک محدود نہیں رہے گا ۔ ان ذرائع کے مطابق تمام صوبائی حکومتوں اور پولیٹیکل اسٹیک ہولڈرز کو آپریشن عزم استحکام کی اونر شپ لینی پڑے گی کیونکہ شدت پسندی اور دہشت گردی پاکستان کی سیکورٹی اور سلامتی سے متعلق ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس کے خاتمے کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے گا ۔ دوسری جانب پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو پاکستان ٹی ٹی پی کے خلاف افغان سرزمین پر بھی کارروائی سے گریز نہیں کرے گا ۔ ان سمیت اعلیٰ عسکری قیادت کا بھی موقف ہے ہے کہ افغان سرزمین اگر پاکستان سمیت کسی کے خلاف بھی استعمال ہوتی ہے تو یہ دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور یہ کہ افغانستان کی عبوری حکومت کو ماضی کی ایک مزاحمتی گروپ کے برعکس اب حکمرانی کا طرزِ عمل اختیار کرنا پڑے گا ۔
اس تمام تر بحث میں آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کرنے کا ایک نقصان یہ ہوا ہے کہ اس مجوزہ ” ایونٹ ” کو وقتی طور پر متنازعہ بنادیا ہے تاہم اعلیٰ ترین ملٹری حکام اور سول حکمرانوں کے عزم سے لگ یہ رہا ہے کہ شدت پسندی ، دہشت گردی اور ٹیرر فنانسنگ کے متعلقہ معاملات پر زیرو ٹاولرنس کی پالیسی اختیار کی گئی ہے اور آیندہ چند ہفتے اور مہینے اس حوالے سے بہت فیصلہ کن ثابت ہوں گے ۔ اس مجوزہ پلاننگ کو آپریشن کا نام دیا جائے ، روڈ میپ کا یا ایک مربوط حکمت عملی کا آثار تو یہ بتارہے ہیں کہ ریاست سخت رویہ اختیار کرنے والی ہے ۔ ایسے میں حکمران اتحاد سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز ، سیاسی جماعتوں اور میڈیا کو ایک پیج پر آکر کسی قسم کے ابہام سے دور رہنے اور ریاست کے دفاع کا اجتماعی رویہ اختیار کرنا پڑے گا اور اگر مگر ، چونکہ چنانچہ کے رویے کو ترک کرنا پڑے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts