اسلام آباد ہائی کورٹ کے یک رکنی بینچ نے سابق وزیر اعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کو توشہ خانہ 2 کیس میں بری کردیا ہے تاہم اسی روز اسلام آباد پولیس نے انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت قائم مقدمات میں ان کی ایک اور گرفتاری ڈال دی اور اس قسم کی تفصیلات بھی فراہم کی گئیں کہ موصوف پر مختلف صوبوں میں مزید 66 مقدمات قائم یا درج ہیں۔ جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی سمیت بہت سے حلقوں کی وہ غلط فہمی دور ہوئی جو کہ عمران خان کی فوری رہائی سے متعلق تھی۔ خلاصہ کچھ یوں ہے کہ ابھی سابق وزیراعظم کی رہائی کی راہ میں مزید 66 مقدمات حایل ہیں جن میں 9 مئی سے متعلق دہشت گردی کی بعض دفعات بھی شامل ہیں۔ جس معزز جج نے توشہ خانہ 2 کیس میں ان کی رہائی کے حکم جاری کردیا وہ صحافتی اور عدالتی حلقوں میں اپنے پس منظر اور فیصلوں کے باعث نہ صرف پرو پی ٹی آئی ججز کی سرخیل کے طور پر مشہور ہیں بلکہ بعض حلقے ان کو باقاعدہ “یوتھیا” بھی قرار دیتے ہیں۔
ان کے فیصلے کی جو تفصیلات سامنے آگئی ہیں اس سے تو بظاہر ثابت یہ ہوتا ہے کہ جن اداروں نے اس کیس کی فائل تیار کی تھی ان کا مقصد ملزم کو سرے سے سزا دلوانا ہی نہیں تھا ۔ یوں دوسرے کیسز کی طرح یہ کمزور کیس بھی “وڑ” گیا۔ رہی سہی کسر جج موصوف نے پوری کردی۔
بعض معتبر حلقے اس فیصلے کو ایک مبینہ یا مجوزہ ڈیل یا ڈھیل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں تاہم ریاست کا موڈ تو تادم تحریر عمران خان اور ان کی پارٹی کو کسی “بڑی رعایت” دینے کا نظر نہیں آرہا۔ یہ کہنا فی الحال درست نہیں لگ رہا کہ سابق وزیراعظم جیل سے باہر آسکتے ہیں۔ محض مفروضوں اور خواہشات کی بنیاد پر اس قسم کی توقع رکھنا سراب کے پیچھے بھاگنے والی بات ہے۔ بلاشبہ ایک مبینہ مذاکراتی عمل کا سلسلہ جاری ہے اور بعض شرائط بھی سامنے آئی ہیں مگر یہ کہنا درست نہیں ہے کہ پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو کوئی بڑا “پیکج” دینے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ اس کا اندازہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی گزشتہ روز کراچی میں ہونے والے دورے کے دوران کی گئی اس بات سے لگایا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ جن لوگوں نے پاکستان کو ڈیفالٹ قرار دینے اور مایوسی پھیلانے کی کوششیں کیں آج وہ کدھر ہیں اور یہ کہ کیا ان کا مواخذہ نہیں ہونا چاہیے ؟اس سے قبل ایسی ہی باتیں وہ اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں کہہ چکے تھے۔
9مئی کے واقعات پر پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ اب بھی زیرو ٹاولرنس کی پالیسی پر گامزن ہے اور وہ ان ایشوز پر غیر معمولی “حساسیت” کا مظاہرہ کرتی دکھائی دیتی ہے اس لئے فی الحال کسی بڑی “خوشخبری” کا امکان نظر نہیں آتا اور بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہنوز دلّی دور است۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے 24نومبر کی احتجاجی کال کا کیا ہوگا تو موجودہ صورتحال کے تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ اس کا وہی حشر ہوگا جو پہلے ایونٹس کا ہوتا رہا ہے۔