GHAG

ڈی جی آئی ایس پی آر: 9 مئی کے اصل کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچانے تک انصاف کا سلسلہ جاری رہے گا

پاکستان اور پاکستانی قوم اس جیسے کسی سانحے اور ایسی انتشاری سیاست کی اجازت نہیں دے سکتی

9 مئی کے واقعات کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں ملتا تو ملٹری کورٹ کے طریقہ کار کے حوالے سے پروپیگنڈا کیا جاتا ہے

پاکستان میں دہشتگردی کے تانے بانے اور شواہد افغانستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں تک جاتے ہیں

افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کا کردار سب سے اہم رہا ہے، کئی ملین افغان باشندوں کی دہائیوں سے ہم میزبانی کرتے آرہے ہیں

جب 2021 میں فتنۃ الخوارج کی کمر ٹوٹ گئی تھی اور وہ فرار ہورہے تھے تو اس وقت کس کے فیصلے پر بات چیت کے ذریعے انہیں دوبارہ آباد کیا گیا؟

رواں سال 59 ہزار 775 آپریشنز کیے گئے، خوارج سمیت 925 دہشت گردوں اور خوارج کو واصل جہنم کیا گیا، سیکڑوں کو گرفتار کیا گیا

راولپنڈی(غگ رپورٹ) پاک فوج کے  شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ 9 مئی کے اصل گھناؤنے کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، ملٹری کورٹس کو عالمی عدالت کی تائید حاصل ہے۔

راولپنڈی میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ انصاف کا سلسلہ اس وقت تک چلے گا، جب تک 9 مئی کے منصوبہ سازوں اور اصل گھناؤنے کرداروں کو آئین اور قانون کے مطابق کیفر کردار تک نہیں پہنچادیا جاتا، کیوں کہ پاکستان اور پاکستانی قوم اس جیسے کسی سانحے اور ایسی انتشاری سیاست کی اجازت نہیں دے سکتی۔

کچھ لوگ اپنی سیاست کے لیے نوجوانوں میں زہر بھرتے ہیں

انہوں نے کہا کہ وہ نوجوان بچے جنہیں زہریلا پروپیگنڈا کرکے ریاست اور اداروں کے خلاف کھڑا کیا گیا، ان کے والدین کودیکھنا چاہیے کہ ان کے بچوں کو مخصوص سیاسی ایجنڈے کے لیے کس طرح استعمال کرکے سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا، کچھ لوگ اپنی سیاست کے لیے نوجوانوں میں زہر بھرتے ہیں، اس بیانیے اور پروپیگنڈے کی بنیاد رکھنے والے ہی اصل ملزم ہیں، اس لیے انصاف کا سلسلہ اس وقت تک چلے گا۔

9 مئی افواج پاکستان کا نہیں عوام پاکستان کا مقدمہ ہے ، ڈی جی آئی ایس پی آر

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ 9 مئی کے بارے میں افواج پاکستان کا نقطہ نظر واضح، غیر مبہم اور مستقل ہے کہ 9 مئی افواج پاکستان کا نہیں عوام پاکستان کا مقدمہ ہے، اگر کوئی گمراہ، مسلح اور پرتشدد گروہ اس طریقے سے اپنی مرضی اور سوچ معاشرے پر مسلط کرنا چاہے اور اس طرز عمل کو آئین و قانون کے مطابق نہ روکا جائے تو معاشرے کو ہم کس طرف لے کر جائیں گے؟

سیاسی جماعتوں کے مذاکرات میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا پاک فوج کا ہر حکومت کے ساتھ سرکاری اور پیشہ وارانہ تعلق ہوتا ہے، اس تعلق کو سیاسی رنگ دینا مناسب نہیں، تمام سیاسی جماعتیں اور لیڈرز قابل احترام ہیں، خوش آئند ہےکہ سیاستدان مل بیٹھ کر اپنے معاملات حل کریں نہ کہ انتشاری انداز اپنایا جائے۔

ان کا کہنا تھا ہمارے لیے تمام سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادت قابل احترام ہیں، کسی سیاسی لیڈر کی اقتدار کی خواہش پاکستان سے بڑھ کر نہیں۔

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا 9 مئی کے پیچھے مربوط سازش اور منصوبہ بندی تھی، اس منصوبہ بندی اور سازش میں ملوث عناصر کو کیفرکردار تک پہنچانا ضروری ہے، ملٹری ٹرائل میں ملزم کو قانونی حقوق حاصل ہوتے ہیں، فیض حمید کو حاصل بھی ہے، کوئی بھی افسر سیاست کو ریاست پر مقدم رکھے گا تو جواب دینا پڑے گا، نومبر 2024 میں بھی 9 مئی 2025 کا تسلسل دیکھا۔

ایک اور سوال کے جواب میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا 9 مئی افواج پاکستان کا نہیں عوام پاکستان کا مقدمہ ہے، دہشتگردی کے مسئلے پر مزید کوئی سیاست نہیں ہونی چاہیے۔

7 رکنی بینچ کے فیصلے کی روشنی میں سزائیں سنانے کا عمل مکمل کیا جاچکا ہے

ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2023 میں اعلیٰ عدلیہ نے ملزمان کی ملٹری کورٹس کو حوالگی کا معاملہ منجمد کردیا تھا، حال ہی میں 7 رکنی بینچ کے فیصلے کی روشنی میں سزائیں سنانے کا عمل مکمل کیا جاچکا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ جس میں مروجہ قانون کے تحت ثبوت اور شواہد کے مطابق تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرکے وہ تمام لوگ جو 9 مئی کی ہنگامہ آرائی میں ملوث تھے اور جن کو قانون کے مطابق فوج کی تحویل میں دیا گیا تھا، انہیں سزائیں سنانے کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔

سزاؤں کے فیصلے سے واضح پیغام جاتا ہے کہ اس طرح کے معاملات کی کوئی گنجائش نہیں ہے

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ملٹری کورٹس کے سانحہ 9 مئی کے ملزمان کو دی گئی سزاؤں کے فیصلے سے واضح پیغام جاتا ہے کہ اس طرح کے معاملات کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اور مستقبل میں بھی کوئی اس قسم کے معاملات میں ملوث ہوگا تو اسے آئین و قانون کے مطابق بہرصورت سزا ملے گی۔

انہوں نے واضح کیا کہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے سویلین بالادستی اور شفافیت کے فقدان کا جو بیانہ بنایا جارہا ہے، اس کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان میں ملٹری کورٹس آئین و قانون کے مطابق دہائیوں سے قائم ہیں اور یہ انصاف کے تمام تقاضوں کو بخوبی پورا کرتی ہیں، عالمی عدالت انصاف نے بھی اس کے پورے عمل کی تائید کی ہے۔

فوجی عدالتوں میں شفاف ٹرائل

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ملٹری کورٹس کو اپنا وکیل کرنے، اپنے شواہد پیش کرنے، گواہ لانے، جراح کرنے سمیت تمام قانونی حقوق مہیا کیے جاتے ہیں اور اگر مجرموں کو سزا ہوجائے تو نہ صرف کورٹ اپیل میں آرمی چیف بلکہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی انہیں اپیل کا حق حاصل ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ ملٹری کورٹ کے فیصلے بھی سپریم کورٹ کا حکم آنے کے بعد سنائے گئے ہیں، جب 9 مئی کے واقعات کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں ملتا تو ملٹری کورٹ کے طریقہ کار کے حوالے سے پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج ملٹری کورٹس پر بات کرنے والے کل اس کے سب سے بڑے داعی تھے۔

پروپیگنڈا کرنے والے خوش ہو کہ ایجنسیوں کے بندوں کو سزائیں ملیں

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ کچھ عرصے پہلے یہ بیانیہ بنایا جارہا تھا کہ احتجاجی انتشاری ایجنسیوں کے پلانٹ کردہ لوگ ہیں اور فوج نے گہری سازش کے تحت خود یہ حملے کرائے ہیں، پھر اگر ہم نے اپنی ایجنسیوں کے بندوں کو اپنے قانون کے تحت سزائیں دے دی ہیں تو ان انتشاریوں کو خوش ہونا چاہیے، لیکن اب وہ پریشان ہیں کیونکہ اپنے اقتدار کی ہوس میں وہ منافقت اور فریب کی آخری حدوں کو عبور کرچکے ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ انسداد دہشت گردی عدالتوں میں 9 مئی کے مقدمات کو بھی انجام تک پہنچنا چاہیے، دنیا میں نظر دوڑائیں تو ابھی لندن میں اس سال جولائی میں جھوٹی سوشل میڈیا پوسٹوں پر لندن میں جو فسادات ہوئے، ان میں سرعت کے ساتھ نا صرف بالغوں بلکہ نابالغوں کو بھی سزائیں ہوئی ہیں، 2020 میں کیپیٹل ہل پر حملہ کیا گیا تو ملزمان کو کتنی تیزی سے سزائیں دی گئیں؟

ان کا کہنا تھا اس سے قبل 2011 میں لندن میں 1200 سے زائد ملزمان کوتیزی سے سزائیں دی گئیں، 2023 میں فرانس کے فسادات میں 700 سے زائد لوگوں کو دنوں میں سزائیں دی گئیں، دنیا بھر میں سیاسی انتشاریوں کو کہیں جگہ نہیں دی جاتی۔

پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کا استعمال

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ بارہا نشاندہی کے باوجود افغانستان کی سرزمین سے فتنہ الخوارج اور دیگر دہشتگرد مسلسل پاکستان میں دہشت گردی کرتے آرہے ہیں، افغانستان خارجیوں اور دہشتگردوں کو پاکستان پر فوقیت نہ دے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشتگردی کے تانے بانے اور شواہد افغانستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں تک جاتے ہیں، آرمی چیف اس حوالے سے واضح موقف رکھتے ہیں، پاکستان اپنے شہریوں کی سلامتی کے لیے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھے گا، آرمی چیف بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ ایک پاکستانی کی جان اور مال افغانستان پر مقدم ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر سب جانتے ہیں کہ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے دل و جان سے کوششیں کیں، افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کا کردار سب سے اہم رہا ہے، کئی ملین افغان باشندوں کی دہائیوں سے ہم میزبانی کرتے آرہے ہیں۔

فتنہ الخوارج کو 2021ء میں دوبارہ کس نے آباد کیا؟

اس سوال پر کہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی افغان پالیسی میں خرابی ہے، اسے تبدیل کرکے افغانستان سے مذاکرات کرنے چاہئیں، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہاکہ پچھلے 2 سال عبوری افغان حکومت سے مختلف سطح پر بات چیت اور روابط جاری ہیں اور ہم ان سے ایک ہی بات کررہے ہیں، پاکستان اور افغانستان برادر اسلامی ملک ہیں لہٰذا عبوری افغان حکومت دہشتگردوں اور فتنۃ الخوارج کو پاکستان پر مقدم نہ رکھے۔

انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان کے ساتھ بات چیت نہ صرف براہ راست بلکہ دوست ممالک کے ذریعے بالواسطہ بات چیت بھی جاری ہے اور افغان عبوری حکومت کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان کی جانب سے فتنۃ الخوارج کے ساتھ ہونے والی سہولت کاری کو روکا جائے، ہم انہیں کہتے ہیں کہ افغانوں کو دہشت گردوں کے ساتھ شامل ہوکر پاکستان میں دہشت گردی کرنے سے روکا جائے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ افغان خودکش بمباروں کو کنٹرول کیا جائے لیکن مسلسل رابطے کے باوجود فتنہ الخوارج کے رہنماؤں کے دفاتر، تربیتی مراکز اور رابطے باقاعدگی سے آپریٹ ہوتے رہیں اور روزانہ کی بنیاد پر ہمارے معصوم شہریوں اور قانون کے رکھوالوں کا خون بہایا جائے تو کیا ہم خاموشی سے تماشا دیکھتے رہیں؟

انہوں نے رپورٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ جو دوغلی سیاست کا پرچار کرتے ہیں، میں نے ان سے ایک سادہ سوال کرتا ہوں کہ آج سے 6 دن پہلے 21 دسمبر 2024 کو جنوبی وزیرستان میں ایف سی کے 16 جواب فتنۃ الخوارج سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے کیا ان کے خون کی کوئی قیمت نہیں ہے؟ کیا وہ سب خیبرپختونخوا کے شیر دل جوان نہیں تھے؟

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا میں سوال کرتا ہوں کہ جب 2021 میں فتنۃ الخوارج کی کمر ٹوٹ گئی تھی اور وہ فرار ہورہے تھے تو اس وقت کس کے فیصلے پر بات چیت کے ذریعے انہیں دوبارہ آباد کیا گیا؟ کس نے ان کو طاقت اور دوام بخشا؟ اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والے رکھوالے اور جوان روزانہ ان فیصلوں کی لکھائی اپنے خون سے دھورہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی فریق اپنی گمراہ سوچ اور اپنی مسلط کرنے پر تلا ہو تو اس سے کیا بات کریں؟ اگر اس طرح کے ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا دنیا کی تاریخ میں کوئی جنگ و جدل، کوئی غزوات اور مہمات نہ ہوتیں، ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ مسلمان اور ہرمحب وطن شہری کے لیے جان اور قربانی دینا فخر ہوتا ہے، ہم اپنے ایمان، وطن اور آزادی پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔

بات چیت اور دوبارہ آباد کاری کی نام نہاد پالیسی خمیازہ ہم سب بھگت رہے ہیں۔

لیفٹییننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہاکہ اگر اس تلخ تجربے اور حقیقت سے گزرنے کے باوجود کوئی لیڈر اور سیاسی شخصیت یہ کہے، ایسی شخصیت جو اس صلاحیت سے عاری ہوکہ اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھے، اور جو یہ سمجھتا ہو کہ اسے ہر چیز کا علم ہے تو ایسے رویوں کی قیمت پوری قوم اپنے خون سے چکاتی ہے اور ہم چکا رہے ہیں، بات چیت اور دوبارہ آباد کاری کی نام نہاد پالیسی خمیازہ ہم سب بھگت رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ اب جو اس مطالبے کی تکرار کی جارہی ہے کم ازکم اس بات کو تو واضح کرتی ہے کہ 2021 میں بھی کس کی ضد تھی کی ان سے بات چیت کرکے انہیں دوبارہ آباد کیا جائے، اس ضد کی قیمت پاکستان اور بالخصوص خیبرپختونخوا ادا کررہا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم انسداد دہشت گردی کے حساس ترین مسئلے پر سیاست، کنفیوژن اور بیانیہ سازی کے بجائے خیبرپختونخوا میں گڈ گورننس پر توجہ دیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گورننس کے خلا کو روزانہ ہم اپنی قربانیوں اور شہدا کے خون سے پُر کررہے ہیں، تو بجائے اس کے اس پر بیانیے بنائے جائیں اور سیاست کھیلی جائے کیوں نہ ہم اچھی حکمرانی اور مسائل پر توجہ دیں جن کی وجہ سے وہاں احساس محرومی اور دہشت گردی کے سہولت کاری ہورہی ہے، کیونکہ وہ ہم نے نہیں کرنا تو اس لیے اس پر سیاست کی جارہی ہے لہٰذا وقت آگیا ہے کہ ہم یکجا ہوجائیں اور کہیں کہ دہشت گردی پر سیاست نہیں ہوگی۔

2024 میں دہشتگردی کے خلاف آپریشنز کی تفصیل

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردوں کیخلاف طویل اور مشکل جنگ لڑ رہی ہیں، رواں سال 59 ہزار 775 آپریشنز کیے گئے، خوارج سمیت 925 دہشت گردوں اور خوارج کو واصل جہنم کیا گیا، سیکڑوں کو گرفتار کیا گیا، ملک بھر میں تمام ادارے یومیہ 169 انسداد دہشت گردی کے آپریشنز کیے گئے، کئی دہشتگردی کے منصوبے ناکام بنائے گئے، گرفتار ملزمان سے غیر ملکی اسلحہ اور گولہ بارود بھی ملا۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکیورٹی فورسز نے دشمن کے نیٹ ورک پکڑنے اور دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں اہم کامیابیاں ملیں، ان آپریشنز کے دوران 73 ہائی ویلیو ٹارگٹس یعنی انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ 5 سال کے دوران کسی ایک سال میں مرنے والے دہشتگردوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے، جہنم واصل ہونیوالوں میں فتنہ الخوارج کا سرغنہ میاں سید عرف قریشی استاد مالا کنڈ ڈویژن، فتنہ الخوارج مردان کا محسن قادر، عطا اللہ عرف مہران جو سوات میں سفارتکاروں پر حملے میں ملوث تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ فدا الرحمٰن عرف لال ژوب ڈویژن، علی رحمان عرف طحہٰ سواتی اور ابو یحییٰ بھی مرنے والوں میں شامل ہیں، بلوچ دہشتگردوں میں ثنا عرف برو، بشیر عرف جان، نیاز، ظریف شاہ جہان، حضرت علی عرف اسد، لاپ جان چاکر آبادی، اس کے علاوہ 27 افغان دہشتگردوں کو بھی جہنم واصل کیا گیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس کے علاوہ افغانستان سے تعلق رکھنے والے 2 خود کش بمباروں کو بھی گرفتار کرکے دہشتگردی کا منصوبہ ناکام بنایا گیا، ان افغان بمباروں انصاف اللہ اور روح اللہ شامل تھے۔

بلوچستان سے گرفتار ہونے والی خود کش عدیلہ نے انکشافات کیے کہ کس طرح دہشتگرد معصوم بچوں کی ذہن سازی کرکے ان سے دہشت گردی کروارہے ہیں۔

پاک فوج کے افسران اور جوانوں کی شہادتیں

انہوں نے کہا کہ سال 2024 میں انسداد دہشتگردی کے آپریشنز کے دوران 383 افسران اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، پوری قوم ان بہادر سپوتوں کو خراج عقیدت اور سلام پیش کرتی ہے، جنہوں نے ملک کے لیے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ ملک کی سلامتی اور امن کے لیے پیش کیا، یہ جنگ ان شا اللہ آخری دہشتگرد اور خوارج کے خاتمے تک جاری رہے گی۔

مغربی سرحد پر اقدامات کی تفصیل

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ویسٹرن بارڈر مینجمنٹ کے لیے کام آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے، قبائلی اضلاع میں 72 فیصد علاقہ بارودی سرنگوں سے کلیئر کردیا گیا، ون ڈاکومنٹ رجیم کے نفاذ کے بعد غیرقانونی بارڈر کراسنگ، اسمگلنگ میں خاطر خواہ کمی آئی ہے، پاسپورٹ کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے، پاکستان سے غیر قانونی افغان باشندوں کے انخلا کا عمل جاری ہے، اب تک 8 لاکھ 15 ہزار سے زائد افغان باشندے اپنے ملک جاچکے ہیں۔

مشرقی سرحد پر بھارت کی سیز فائر کی خلاف ورزیاں

انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے مشرقی سرحد پر خطرات کا ہمیں ادراک ہے، بھارت خطے میں اپنی اجارہ داری کے لیے جو اقدامات کر رہا ہے، پاکستان کی سول و عسکری قیادت اس سے بخوبی آگاہ ہے، بھارت نے اس سال کئی بار چھوٹی سطح پر سیز فائر کی خلاف ورزیاں کی گئیں، جس میں 25 سیز فائر کی خلاف ورزیاں، 564 دیگر اور 161 فضائی خلاف ورزیاں کی گئیں، متعدد فالس فلیگ آپریشنز بھی کیے گئے، جن کا مقصد بھارت کی اندرونی سیاست پر اثر انداز ہونا تھا۔

ان کا کہنا تھا پاک فوج لائن آف کنٹرول پر بھارت کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے، پاک فوج پاکستان کی خود مختاری اور سلامتی کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہے۔

 قدرتی آفات میں پاک فوج کا کردار

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افواج پاکستان قدرتی آفات اور ہر مشکل گھڑی میں عوام کی خدمت میں پیش پیش رہتی ہے، ان میں حکومت کی معاونت سے کئی شعبوں کے منصوبے مکمل کیے جاتے ہیں، 2024 میں خیبر پختونخوا میں پاک فوج نے مقامی افراد کے مسائل کے حل کے لیے 6500 پروگرام مکمل کیے، مقامی طلبہ کو چیف آف آرمی اسٹاف ایجوکیشن پروگرام کے تحت آرمی پبلک اسکولز، کیڈٹ کالجز میں داخلے دیے گئے، نوجوانوں کو فورسز میں بھرتی کیا گیا، انفرا اسٹرکچر کی بحالی کے کئی منصوبے مکمل کیے گئے، چند پر کام جاری ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ سیلاب کے دوران پختونخوا میں سیکڑوں میڈیکل کیمپس لگائے گئے، متاثرین کا ہر ممکن ساتھ دیا گیا۔

 بلوچستان میں پاک فوج کی سرگرمیاں

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بلوچستان میں بھی امدادی پروگرامز کا سلسلہ جاری ہے، بلوچستان میں سوشو اکانومی منصوبوں کی شرح دیگر صوبوں سے زیادہ ہے، تاکہ بلوچستان کے حوالے سے جاری منفی پروپیگنڈا توڑا جاسکے، بلوچستان میں متحدہ عرب اور چین کے تعاون سے کئی اہم منصوبے مکمل کیے گئے، جن پر ہم دوست ممالک کے شکر گزار ہیں، چند منصوبےاب بھی جاری ہیں، بلوچستان میں کچھی کینال منصوبہ 65 ہزار کینال اراضی کو سیراب کر رہا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سبی اور ہرنائی کے درمیان سو کلو میٹر سے زائد ریلوے ٹریک کو مرمت کرکے 17 سال بعد کھول دیا گیا، آرمی چیف کی خصوصی توجہ سے گوادر میں صحت، تعلیم، پانی کی فراہمی سمیت کئی منصوبوں پر کام چل رہا ہے، چمن ماسٹر پلان کی تکمیل اہم سنگ میل ہے، چمن اور طور خم بارڈر پر تجارت کو سہولت فراہم کرنے کے لیے جدید سسٹم نصب کیا جارہا ہے، جس کے بعد کلیئرنس کا وقت مزید کم ہوجائے گا، 90 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے، یہ منصوبہ 3 ماہ میں مکمل ہوجائے گا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ کوئٹہ میں سیف سٹی پروجیکٹ، پاک افغان بارڈر پر جوائنٹ اسسٹنٹس مارکیٹس قائم کی جاچکی ہیں۔

(27دسمبر 2024)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts