GHAG

بڑا ناسور، ڈیجیٹل دہشت گردی

تحریر: روخان یوسف زئی

مسائل اس ملک میں تھے، ہیں اور ہوں گے، جن میں مہنگائی،ناانصافی،بے روزگاری اور رشوت جیسے مسائل سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔مگر ان مسائل میں آج جو سب سے بڑا مسئلہ ملک کو درپیش ہے وہ ہے پاکستان کی سیکورٹی، امن وسلامتی،استحکام اور پارلیمانی جمہوریت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اور چیلنج انتہاپسندی،شدت پسندی، دہشت گردی اور پھر”ڈیجیٹل دہشت گردی“ ہے اور یہ ایک ایسا درخت بن چکا ہے جس کی جڑیں اور شاخیں ملک کے اندر اور باہر تک پھیلی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ اور”ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ“ کے مصداق اس وقت پاکستان میں دہشت گردی مختلف شکلوں،ناموں،طریقوں اور صورتوں میں حملہ آور ہے۔کبھی کس نام اور کبھی کس شکل میں جدید ہتھیاروں سے لیس جھتہ سرحدی سیکورٹی فورسز پر حملہ آور ہوتا رہتا ہے۔بارودی سرنگیں بچھاکر سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنانا، ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے خونریزی کرنا خودکش بمباروں کے ذریعے قتل عام کرنا یہ مسلح دہشت گردی ہے۔

اس قسم کی دہشت گردی تواتر کے ساتھ ہورہی ہے خصوصاً افغانستان کو طالبان کے حوالے کرنے کے بعد تو پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں مزید اضافہ اور تیزی آئی ہے۔اس کی دوسری جہت ملک میں معاشی دہشت گردی ہے۔جس کا ایک ہی مقصد اور مخصوص ایجنڈا پاکستان کو مالی اور پیداواری طور پر مفلوج اور بالفاظ دیگر برباد کرنا ہے۔اس قسم کی دہشت گردی بھی تواتر کے ساتھ ہورہی ہے۔

تیسری قسم ملک میں سیاسی دہشت گردی ہے۔اس میں بعض ایسی جماعتیں اور تنظیمیں شامل ہیں جو انتہاپسند نظریات کو پروان چڑھانے میں اپنے تئیں کام کررہی ہیں۔ایک کام تو عوام میں مقبول سیاسی جماعتوں میں ایسی قیادت ابھارنا جو انتہاپسند،تنگ نظر اور شدت پسند نظریات کی حامل ہوں یا ان نظریات کو ریاست اور قوم کے لیے کوئی بڑا خطرہ نہ سمجھتے ہوں۔ساتھ ہی ان جماعتوں اور تنظیموں کا یہ بھی ایجنڈا ہے کہ ریاستی اداروں پراثرانداز اس ہوا جاسکے۔ پارلیمنٹ کے ذریعے ایسی قانون سازی کرانے کی کوشش کرنا جو انتہاپسندی کو تحفظ دے سکے،تعلیمی نصاب پر ضرب لگانا بھی اسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔یہ سارے پہلو پاکستان کے لیے خطرناک ہیں لیکن اب ”ڈیجیٹل دہشت گردی“ سب پر لے رہی ہے جس کی وجہ سے آج پاکستان ڈیجیٹل دہشت گردی کی یلغار کا سامنا کررہا ہے۔لہٰذا عوام،سیاسی و مذہبی جماعتوں،فوج اور دیگر اداروں کی متفقہ طور پر سب سے پہلی ترجیح یہ ہونی چاہیئے کہ پاکستان کو ترقی، خوشحالی،امن وسلامتی اور معاشی استحکام کے راستے پر چلانے کے لیے ہر قسم کی دہشت گردی کی شاخ تراشی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں اس کی جڑیں کاٹنا ہوں گی۔وہ تمام سرچشمے مکمل بند کرنا ہوں گے جہاں سے دہشت گردی کی نظریاتی تعلیم پھیلتی جارہی ہے۔ جس کے بغیر پاکستان سیاسی عدم ا ستحکام،معاشی عدم استحکام،عدم رواداری اور بدامنی سے چھٹکارا نہیں پاسکتا۔پاکستان کی پاپولر سیاسی قیادت،مذہبی جماعتوں کی قیادت،ریاست کے اعلیٰ ترین مناصب پر فائز لوگ اور اہل علم دیکھ رہے ہیں اور پڑھ رہے ہیں کہ ہماری سیکورٹی فورسز کے افسران اور اہلکار دہشت گردوں کے ساتھ لڑرہے ہیں، اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔اس لڑائی میں فوج،رینجرز،بارڈر سیکورٹی فورسز،انٹیلی جنس افسر اور اہلکار،پولیس کے افسر اور اہلکار،انتظامیہ کے افسر اور اہلکار روزانہ کی بنیاد پر قربانیاں دے رہے ہیں۔ہزاروں پاکستانی شہری دہشت گردی کی وارداتوں میں اپنی جانیں قربان کرچکے ہیں۔

اس پس منظر میں پاپولر سیاسی قیادت،مذہبی جماعتوں کی قیادت کا کردار اور حصہ قابل گرفت ہے۔سیاسی جماعتوں کی قیادت اس حساسیت اور نزاکت کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتی۔پاپولر سیاسی جماعتوں کی قیادت اپنے ظاہر میں ماڈرن اور جدت پسند نظر آتی ہے لیکن عمل میں قبائلی،جاگیرداری اور اجاراداری کے خیرخواہ ہیں۔ان پارٹیوں کو جب بھی اقتدار ملا،وہ جیسے ہے،ویسے کی بنیاد پر کام کرتی ہیں اور جب ان کا اقتدار ختم ہوتا ہے تو ملک وہیں کھڑا ہوتا ہے جہاں سے وہ اقتدار میں آئی تھیں۔اسی طرح ملک کے شاعر ادیب،ماہرین تعلیم،فلاسفر اور دانشوروں کا دہشت گردی کی لڑائی میں کردار پر بھی انگلی اٹھ سکتی ہے۔ کیونکہ دنیا میں جہاں جہاں ملکوں اور قوموں نے انتہاپسند نظریات کو شکست دی ہے ان میں اہل علم،شاعروں،ادیبوں،صحافیوں اور دانشوروں نے اپنے حصے کی شمع روشن کی ہے۔اور اس سے ہمارا دانشور طبقہ اپنے آپ کو کسی طور بھی بری الزمہ قرار نہیں دے سکتا۔شاعر انسانیت رحمان بابا فرماتے ہیں کہ

چہ جامہ د چا کوتاہ یا اوگدہ شی

ورکوے شی ہنر مند لرہ پیغور

ترجمہ۔جب کسی کا لباس (پہناوا) چھوٹا یا بڑا ہوجائے تو اس بات کا طعنہ اس درزی یا ٹیلر کو دیا جاتا ہے جس نے یہ لباس بنایا ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts