عقیل یوسفزئی
افغانستان کے سابق صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کو 27 ستمبر 1996ء کو ان کے بھائی سمیت کابل کے ایک مصروف چوک میں انتہائی بے دردی سے مار کر لٹکایا گیا تھا جہاں ان دونوں کی لاشوں کی بے حرمتی کا نظارہ کابل کے شہری کئی گھنٹوں تک کرتے رہے مگر کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ ایک سابق صدر اور ان کے بھائی کی لاشوں کی بے حرمتی کے خلاف آواز بلند کی جاتی۔
ڈاکٹر نجیب اللہ سال 1946 کو گردیز افغانستان میں پیدا ہوئے۔ قوم پرست اور کمیونسٹ نظریات رکھنے والے یہ رہنما کافی عرصہ تک پشاور میں بھی مقیم رہے اور پشتون قوم پرستوں کے ساتھ ان کے قریبی مراسم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب 27 ستمبر 1996 کو طالبان نے اقوام متحدہ کے دفتر سے ان کو بھائی سمیت نکال کر قتل کیا تو خان عبد الولی خان، لطیف آفریدی اور افراسیاب خٹک سمیت تمام اہم لیڈروں نے یونیورسٹی روڈ پشاور کی سپین جماعت میں ان کی فاتحہ خوانی لی اور یہی صورتحال کوئٹہ اور کراچی میں بھی دیکھنے کو ملی اور لاکھوں افغانوں کی طرح پاکستان کے قوم پرست ان کو شہید قرار دیتے رہے۔
جس روز ان دو بھائیوں کو مارا گیا اس دوران ان کی والدہ اور بہن فیملی کے بعض دیگر افراد کے ساتھ پشاور کے علاقے گلبرگ میں کرایہ کے ایک گھر میں رہائش پذیر تھیں اور ان کی بے چینی اور بے بسی قابل دید تھی کیونکہ دوسروں کی طرح ان کو بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ اقوامِ متحدہ اپنے ان مہمانوں کی حفاظت کی ذمہ داری بھی پوری نہیں کرسکے گی جنہوں نے رضاکارانہ طور پر اس نام و نہاد عالمی ادارے کی گارنٹی پر سوویت انخلاء کے بعد اقتدار سے علیحدگی اختیار کی تھی۔
بہت سے لوگ گلبرگ پشاور میں مقیم ڈاکٹر نجیب اللہ کی والدہ اور بہن سے تعزیت کرنے بھی جاتے رہے مگر ہر طرف بے بسی اور خوف کا عالم تھا۔ بعد میں ڈاکٹر نجیب اللہ کی والدہ یونیورسٹی روڈ پشاور کراس کرتے ہوئے ایک بس کی ٹکر مارنے سے وفات پاگئیں۔
ڈاکٹر نجیب اللہ کی موت نے نہ صرف قوم پرستوں کو بہت زیادہ مایوس اور خوفزدہ کردیا بلکہ افغانستان کے اندر طالبان کے مکمل قبضے کا راستہ بھی ہموار کردیا جس کے نتیجے میں دوسرے طالبان مخالف گروپوں کو بھی ہتھیار ڈالنے پڑے۔
اپنے مہمانوں کو تحفظ دینے اور افغانستان کو پرامن رکھنے میں بدترین ناکامی پر اقوام متحدہ سمیت ان چند ممالک کو بھی شدید نوعیت کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا جو کہ ڈاکٹر نجیب اللہ کے قریب سمجھے جاتے تھے اور ان میں بھارت بھی شامل تھا۔ دوسری جانب بعض دیگر کی طرح ایک بھارتی مصنف منموہن سنگھ نے بھی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بھارت کے برعکس پاکستان نے خلاف توقع حالات خراب ہونے پر نہ صرف ڈاکٹر نجیب اللہ اور ان کی فیملی کو پناہ دینے کی پیشکش کی بلکہ جب کابل میں طالبان داخل ہونے لگے تو پاکستان نے ان کو اپنے سفارت خانے میں تحفظ فراہم کرنے کےلئے بھی رابطہ کیا مگر یہ پیشکش بھی انہوں نے مسترد کردی۔