GHAG

آئین کا آرٹیکل 245 ،وزیر اعلیٰ کا بیان اور سیکورٹی صورتحال

خیبرپختونخوا کے وزیر اعلی کے اس بیان پر عسکری، صحافتی اور سیاسی حلقوں میں حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ عوام کی شکایات کے تناظر میں بعض علاقوں سے سیکورٹی چیک پوسٹیں ختم کررہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق فوج حکومت کی درخواست اور ریکوزیشن کے بغیر کسی علاقے میں نہیں جاتی بلکہ اس کے لیے طریقہ کار کے مطابق آئین کے آرٹیکل 245 کا پراسیس مکمل کرنا پڑتا ہے اور خیبرپختونخوا کے بعض علاقوں میں فوج اسی طریقہ کار کے مطابق امن کی بحالی کے لیے تعینات ہے۔

پشاور کے بعض اخبارات اور سوشل میڈیا کے قابل اعتماد ہینڈلرز پر جمعرات کے روز ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری سے منسوب ایک اہم بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اگر خیبرپختونخوا کی حکومت کو صوبے کی بدامنی سے نمٹنے کیلئے فوج کی ضرورت نہیں ہے تو وہ طریقہ کار کے مطابق اس کی واپسی کا مطالبہ کریں کیونکہ فوج کو اس ضمن میں اپنی تعیناتی کا کوئی شوق نہیں ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے اس بیان کو ایک غیر رسمی بات چیت کے طور پر شائع اور پوسٹ کیا گیا ہے ۔مذکورہ رپورٹس کے مطابق اس موقف میں ان کا کہنا تھا کہ بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، وزیرستان اور بعض دیگر علاقوں میں صورتحال ابتر ہوگئی تھی اس لیے فوج نے وہاں کارروائیوں کا آغاز کرتے ہوئے نہ صرف دہشت گردوں کا راستہ روکا بلکہ جرایم پیشہ گروپوں اور افراد پر بھی ہاتھ ڈالا اگر وزیر اعلیٰ کو فوج کی مدد کی ضرورت نہیں ہے تو وہ طریقہ کار کے مطابق معاملات کو پراسیس کریں۔

رپورٹس کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ  فتنہ الخوارج کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات، رابطہ کاری یا رعایت نہیں کی جائے گی بلکہ پورے عزم اور پوری شدت کے ساتھ ان کا خاتمہ کردیا جائے گا اور پاکستان کی سیکورٹی فورسز نہ صرف ایسا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں بلکہ ہمیں دوسروں کے برعکس اس کا تجربہ بھی ہے اس لیے کسی قسم کی خوش فہمی میں نہ رہا جائے۔ ان کے بقول فوج میں ڈسپلن کی خلاف ورزی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اس لیے ایک اہم سابق آفیسر اور بعض دیگر کے خلاف ایک مخصوص پارٹی کی طرف داری کے ثبوت ، شواہد ملنے کے بعد ڈسپلن کے تحت کارروائی عمل میں لائی گئی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts