گزشتہ روز ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب جج صاحبان کی ایک کانوائے پر نامعلوم دہشت گردوں کی جانب ایک حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں دو محافظ شہید ہوگئے ۔ جج صاحبان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تاہم یہ رواں برس ججز پر اس مخصوص علاقے میں دوسرا حملہ ہے۔ اس سے قبل ٹانک سے وزیرستان جانے والے ایک جج کو اغواء کیا گیا تھا ، ان کے گارڈ کو شہید کردیا گیا تھا اور ان کی گاڑی کو نذراتش کیا گیا تھا ۔ بعد میں اس طرح کی اطلاعات موصول ہوئیں کہ صوبائی حکومت نے اغوا کاروں کو کروڑوں روپے ادا کرتے ہوئے جج کو بازیاب یا چھڑایا تھا ۔ عجیب بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے اس اطلاع یا دعویٰ کی تردید بھی نہیں کی تھی کہ اس نے تاوان ادا نہیں کیا تھا۔
سی ٹی ڈی کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں برس خیبرپختونخوا پولیس کے 250 کی لگ بھگ جوانوں کو شہید اور زخمی کیا گیا ہے ۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ پولیس فورس پر سب سے زیادہ حملے رواں برس ڈیرہ اسماعیل خان ہی میں کرایے گئے ہیں ۔ ڈیرہ اسماعیل خان وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور ، گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی اور انسپکٹر جنرل پولیس کا آبائی ضلع ہے ۔ اگر یہ تین اہم حکومتی شخصیات اپنے آبائی شہر اور ضلع کو محفوظ نہیں بناسکتیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صوبے کے دیگر شورش زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز کی کیا نوعیت ہوگی؟
جس روز یہ کارروائی کی گئی اس سے ایک روز قبل گورنر فیصل کریم کنڈی نے پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال بہت زیادہ خراب ہے اور اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے اگر صوبائی حکومت ضروری سمجھے تو وہ معاملات درست کرنے کے لیے وفاقی حکومت سے بات کروانے کو تیار ہیں تاہم صوبائی حکومت نے حسب معمول اس پیشکش کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا ۔ اسی دوران وزیر داخلہ محسن نقوی اور گورنر کے درمیان سیکورٹی چیلنجز پر ایک میٹنگ بھی ہوئی تاہم یہ تمام کوششیں اس لیے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتیں کہ صوبائی حکومت معاملات کو ڈیل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے ۔
صوبائی حکومت کی دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ اس نے اعلیٰ سطحی مداخلت پر تین چار شورش زدہ ضم شدہ اضلاع کی ڈی پی اوز کو اس لیے ٹرانسفر کرادیا کہ انہوں نے ایف آئی آرز کی بنیاد پر قانون کے مطابق 9 مئی کے واقعات میں ملوث یا مطلوب حکمران جماعت کے بعض عہدیداروں کے خلاف کارروائیاں کی تھیں۔
رہی بات نام نہاد صوبائی اسمبلی کی قانون سازی یا کارکردگی کی تو اس کا اندازہ گزشتہ روز ہونے والے اس اجلاس کی شاندار “کارروائی ” دیکھنے سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جس کے دوران دو ” معزز ” ارکان اسمبلی نے نہ صرف ایک دوسرے کو کھلے عام گالیاں دیں بلکہ وہ گھتم گتھا بھی ہوگئے اور کروڑوں لوگوں نے ان منتخب نمائندوں کو ٹیلی ویژن سکرینز پر براہ راست دیکھا بھی۔ اسمبلی اور کابینہ کی پوری توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ وزراء اور ممبران اسمبلی کی مراعات اور سہولیات میں کیسے اضافہ کیا جائے ۔ ان کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ صوبے کو کس نوعیت کی سیکورٹی ، انتظامی اور معاشی چیلنجر اور مسائل کا سامنا ہے۔