یہ بات قابل تشویش ہے کہ خیبرپختونخوا کے انتظامی معاملات دن بدن بگڑتے جارہے ہیں اور وزیر اعلیٰ سمیت کسی کو بیڈ گورننس کے منفی اثرات کا کوئی احساس اور ادراک نہیں ہے ۔ حکمران جماعت کے سینئر رہنما اور عمران خان کے سابق مشیر ارباب شہزاد نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں حکومت نام کی کوئی چیز نظر ہی نہیں آرہی اور بیوروکریسی کے کام کی رفتار ماضی کے مقابلے میں بہت سست ہے۔ ان کے بقول قبائلی علاقوں کی بدامنی نہ صرف یہ تشویش ناک حد تک بڑھ گئی ہے بلکہ وہاں کے عوام کو شدید نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے جس کے حل پر حکومت کی کوئی توجہ نظر نہیں آتی اور اگر یہ لاتعلقی اس طرح برقرار رہی تو معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے کیونکہ دہشت گردی میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے اور فورسز، عوام کو روزانہ کی بنیاد پر حملوں کا سامنا ہے۔
دوسری جانب اے این پی کے صوبائی جنرل سیکرٹری حسین شاہ یوسفزئی ، رکن صوبائی اسمبلی احمدکریم کنڈی اور جے یو آئی کے رہنما امان اللہ حقانی نے ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی حکومت کی نالائقی اور غیرسنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ اس نے ابھی تک مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کی درخواست تک نہیں کی ہے جس کے باعث صوبے کے اقتصادی معاملات آگے بڑھنے کی بجائے مزید خطرے سے دوچار ہوگئے ہیں ۔ تینوں رہنماؤں کے مطابق خیبر پختونخوا میں وزیر اعلیٰ کی سرپرستی میں کرپشن کا بازار گرم ہے اور تقرریوں اور تبادلوں میں کروڑوں کا کھلے عام لین دین جاری ہے۔
گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے بھی کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ کو اپنے کابینہ کے اختلافات کے علاوہ بدترین کرپشن اور اقربا پروری کے الزامات کا بھی سامنا ہے مگر ان کو صوبے کے مسائل اور چیلنجز کا کوئی احساس نہیں ہے۔
تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ وفاق اور صوبے کے درمیان جاری سیاسی کشیدگی اور صوبائی حکومت کی لاتعلقی کے منفی اثرات کی قیمت جنگ زدہ صوبے کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے جبکہ دوسری طرف دہشت گردی کی جاری لہر نے پورے صوبے خصوصاً قبائلی اور جنوبی اضلاع کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس پر قابو پانا انتظامی اور سیاسی طور پر صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے جس کو نبھانے میں تاحال حکومت ناکام دکھائی دے رہی ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔