GHAG

بوکھلاہٹ، بارگیننگ کہ خوش فہمی

یہ بات کافی حد تک تشویشناک ہے کہ پی ٹی آئی اپنے جارحانہ انداز سیاست سے اس کے باوجود باز آتی دکھائی نہیں دیتی کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ سال میں نہ صرف اس پارٹی نے بہت کچھ کھودیا ہے بلکہ اس کے بانی کو مختلف مقدمات میں رعایتیں ملنے کے ہوتے ہوئے بھی جیل میں رکھا گیا ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں ہونے والے پارٹی اجتماع میں مختلف لیڈروں خصوصاً خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے جو لہجہ اور رویہ اختیار کیا اس سے یہ بات پھر سے درست ثابت ہوگئی ہے کہ یہ پارٹی جس جارحانہ اور مخالفانہ نظریہ کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے اس سے پیدا ہونے والے طرزِ عمل نے ایک ایسی نفسیاتی مسئلہ کی شکل اختیار کرلی ہے جس سے پیچھے ہٹنا شاید ممکن نہیں رہا ہے اور یہی طرز عمل اس پارٹی کے کارڈز کو دن بدن کم کرتا جارہا ہے۔

وزیر اعلیٰ نے جس طریقے سے ریاستی اداروں اور مخالفین کو مخاطب کیا اس کو سن کر مہذب لوگوں کو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ لہجہ کسی صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کا بھی ہوسکتا ہے۔

اپنے بانی کو رہائی دلانے کے لیے خدا تعالیٰ کی قسم کھاکر موصوف نے جو ڈیڈلائن دی وہ بھی بہت عجیب سا لگتا ہے۔

اگلے روز جب وزیر اعلیٰ موصوف اسلام آباد ” گئے” اور ان کے ترجمان نے تصدیق کیے بغیر ان کی گرفتاری یا “اغواء” کی بریکنگ نیوز چلواکر پورے ملک کو جس ہیجان میں مبتلا کردیا اس نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ اس پر ستم یہ کہ بانی سمیت تمام اہم لیڈروں نے حقائق جانے بغیر  “مسنگ چیف منسٹر” کا انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیانیہ تشکیل دیتے ہوئے اہم ریاستی اداروں کو حسب معمول بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور لیڈرز ، وزراء اپنے کارکنوں کو “مسنگ چیف منسٹر” کی بازیابی کیلئے میدان جنگ سجانے پر کھلے عام اکساتے رہے۔

بعد میں رات گئے وزیر اعلیٰ کے برادر خاص اور رکن قومی اسمبلی نے ایکس پر اپنے کارکنوں اور عوام کو “خوشخبری” سنائی کہ وزیر اعلیٰ صاحب اسلام آباد سے پشاور روانہ ہوچکے ہیں۔ موصوف نے اپنے ایکس پوسٹ میں یہ بھی لکھا کہ علی امین گنڈاپور امن و امان سے متعلق ایک اہم اجلاس میں شرکت کرنے گئے تھے۔

حقائق کیا ہیں اور وزیر اعلیٰ اس تمام واقعے پر کیا تفصیلات پیش کرتے ہیں اس سے قطع نظر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس سطح پر وزیر اعلیٰ کی “پراسرار گمشدگی” کی آڑ میں ریاست مخالف مہم جوئی کی گئی اس کی تلافی کون کرے گا اور کارکنوں کو 9 مئی کے طرز پر ایک بار پھر اشتعال دلانے کے ذمہ داران سے کیسے نمٹا جائے گا؟

افسوس کی بات یہ ہے کہ مین سٹریم میڈیا نے بھی اس تمام معاملے کو انتہائی غیرسنجیدگی سے ڈیل کرنے کی کوشش کی اور نہ صرف غلط خبریں نشر کی گئیں بلکہ مفروضوں کی بنیاد پر تشویش اور اشتعال پھیلانے والے تبصرے بھی کیے گئے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ فریقین ملک کو درپیش چیلنجز کا ادراک کرتے ہوئے روایتی ہٹ دھرمی، بدکلامی اور الزام تراشیوں پر مشتمل رویوں سے گریز کا راستہ اختیار کریں اور جو عناصر ایک لیڈر کی مقبولیت کے زعم میں مبتلا ہوکر مزید کشیدگی بڑھانے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں ان کی حوصلہ شکنی کی جائے کیونکہ ریاست کو مذاق سمجھ کر ڈیل کرنے والے ماضی میں بہت سنگین نتائج بھگت چکے ہیں اور خدانخواستہ مذکورہ مقبول لیڈر کو بھی ماضی کے بعض دیگر لیڈروں کی طرح دیوار سے لگانے کی نوبت پیش نہ آئے۔ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے وفاداری نبھاتے ہوئے جس حد تک جانا تھا وہ جاچکے اب وہ نہ صرف اپنے جارحانہ اور غیر مہذبانہ طرزِ عمل پر نظر ثانی کریں بلکہ اپنے سیاسی اور اخلاقی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے جنگ زدہ صوبے کے مسائل کے حل پر بھی کچھ توجہ مرکوز کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts