GHAG

عزم استحکام سے متعلق ایک اور وضاحت

آرمی چیف سید عاصم منیر نے گزشتہ روز یوم دفاع ، شہداء کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ” عزم استحکام ” دہشتگردی اور شدت پسندی سمیت ان سے جڑے ان سرگرمیوں کے خاتمے کے لئے ہے جس کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس آپریشن کے نتیجے میں کوئی بے گھر نہیں ہوگا اس لیے منفی پروپیگنڈا کرنے والے ڈیجیٹل دہشتگردوں کی حوصلہ شکنی کی جائے اور یہ کہ پاکستان اور اس کے عوام کی سلامتی اور تحفظ کو ہر صورت میں یقینی بنایا جائے گا ۔ انہوں نے اس موقع پر مزید کہا کہ پاکستان کی فوج اور عوام کے درمیان پہلے سے زیادہ اعتماد اور قربت موجود ہے اور پاک فوج ایک منظم قومی ادارہ ہے۔

قبل ازیں تمام صوبوں اور اہم شہروں میں یوم دفاع کے موقع پر سرکاری تقریبات کا اہتمام کیا گیا جن میں کور کمانڈرز سمیت اہم فوجی ، سول حکام اور عوامی حلقوں نے بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہوئے امن کے قیام کے لیے قربانیاں دینے والوں کو خراج عقیدت پیش کی ۔ پشاور میں بھی ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں دوسروں کے علاوہ کور کمانڈر پشاور نے مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی اور عوام ، بچوں کے علاوہ فورسز کے جوانوں سے ملے۔

جس روز یہ تقریب منعقد ہوئی اس سے چند گھنٹے قبل ضلع مہمند کے ہیڈکوارٹر غلنی میں موجود مہمند رائفلز کو خودکش حملوں اور فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا تاہم سیکیورٹی فورسز نے اس حملے کو پسپا کرتے ہوئے ناکام بنادیا جبکہ اسی شام کرک میں ایک گیس کمپنی پر حملہ کیا گیا ۔ اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ خیبرپختونخوا کی سیکیورٹی صورتحال کو اس کے باوجود سنگین نوعیت کے چیلنجر درپیش ہیں کہ رواں برس کے ابتدائی 8 مہینوں کے دوران صوبے کے مختلف اضلاع میں سیکیورٹی فورسز نے 882 انٹلیجنس بیسڈ آپریشنز کرتے ہوئے 414 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا ہے اور یہ سلسلہ کسی وقفے کے بغیر جاری ہے۔

ماہرین کے مطابق خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو مذہبی اور قوم پرست انتہا پسندوں کے علاوہ بعض اہم ممالک کی پراکسیز کا بھی سامنا ہے اور یہ دو صوبے اس لیے دہشتگردی سے زیادہ متاثر ہیں کہ ایک تو ان کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ ملی ہوئی ہیں جہاں اگست 2021 کے بعد طالبان کی حکومت ٹی ٹی پی وغیرہ کی سرپرستی کررہی ہے اور دوسرا یہ کہ ان دو صوبوں کو بوجوہ گورننس کے ایشوز کا بھی سامنا ہے۔

ممتاز تجزیہ کار عادل شاہ زیب کے بقول خیبرپختونخوا کی حکومت اور پولیٹیکل اسٹیک ہولڈرز کی مبہم پالیسیوں کے علاوہ یہ دو اہم صوبے میں سٹریم میڈیا کی توجہ اور ڈیبیٹ سے بھی محروم ہیں اور میڈیا کی تمام توجہ ان ایشوز اور شہروں پر مرکوز ہے جہاں سے میڈیا ہاؤسز کو ریٹنگ اور مارکیٹنگ کی مد میں فائدہ ہوتا ہے۔

دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر اختر علی شاہ کے مطابق خیبرپختونخوا کی سیکیورٹی صورتحال کافی پیچیدہ ہے اور اس میں افغانستان کے حالات کا بھی بڑا عمل دخل ہے تاہم دہشت گردی کی حالیہ لہر میں اس وقت اضافہ ہوا جب سابق حکومت نے افغانستان اور پاکستان کی جیلوں اور ٹھکانوں سے سینکڑوں ، ہزاروں افراد کو رہائی دلائی اور مذاکرات کے نام پر ان کو سہولیات فراہم کی گئیں تاہم انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت بالخصوص عسکری قیادت دہشت گردی کے خاتمے سے متعلق ماضی کی طرح نہ تو کسی ابہام سے دوچار ہے اور نہ ہی کسی رعایت یا مذاکرات وغیرہ کی موڈ میں ہے۔

ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر جمیل احمد چترالی کے مطابق جاری صورتحال کو کافی پیچیدہ ہونے کے علاوہ بدلتے علاقائی اور عالمی ترجیحات اور تبدیلیوں کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے معاملات اتنے سادہ نہیں جتنے بعض حلقے سمجھتے آرہے ہیں ۔ ان کے بقول پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو سیاسی اختلافات اور دوریوں سے قطع نظر کم از کم ملک کی سلامتی سے متعلق ایشوز پر ایک پیج پر آکر مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان ہم سب کا ہے اور ہم سب نے اس کی سلامتی ، استحکام اور ترقی کو ممکن بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts