GHAG

کور کمانڈرز کانفرنس میں اہم فیصلے

عقیل یوسفزئی

گزشتہ روز راولپنڈی میں آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں ملک کو درپیش بعض بنیادی چیلنجز پر نہ صرف دوٹوک انداز میں پاک فوج کے موقف کا اظہار کیا گیا بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ پاک فوج کو سیکورٹی چیلنجز کے علاوہ ”ڈیجیٹل دہشتگری” سے پیدا ہونے والی صورتحال اور مختلف نوعیت کی سازشوں کا پورا ادراک ہے اور یہ کہ پوری طاقت کے ساتھ ایسے عناصر کے ساتھ نمٹا جائے گا۔

کانفرنس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ بعض سیاسی اور عوامی حلقے “عزم استحکام” کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے آرہے ہیں اور ایک منظم پروپیگنڈے کے ذریعے پاک فوج اور عوام کے درمیان غلط فہمی اور دوری پیدا کرنے کی کوشش جاری ہے جس کو عوام کے تعاون سے ناکام بنادیا جائے گا۔

جاری کردہ اعلامیے میں افغانستان کے ساتھ تعلقات اور وہاں پاکستان مخالف سرگرمیوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور دوٹوک الفاظ میں واضح کیا گیا کہ مسلح اور ڈیجیٹل دہشتگری کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو متعدد اندرونی اور بیرونی چیلنجر اور مسائل کا سامنا ہے اور بعض سیاسی جماعتوں نے سیاسی اختلافات کو ریاست کے ساتھ کھلی دشمنی کے ماحول میں تبدیل کردیا ہے۔ حملہ آور گروپوں اور قوتوں کو ایسے سیاسی عناصر کی جانب سے سیاسی سپورٹ فراہم کرنے کے لیے نہ صرف “عزم استحکام” کو متنازعہ بناتے ہوئے اس کی مخالفت کی گئی بلکہ پاکستان کی ٹاپ ملٹری لیڈرشپ کے خلاف بہت بڑے پیمانے پر مہم جوئی کی جارہی ہے اور اس تمام تر مہم جوئی کو بعض غیر ملکی اداروں، طاقتوں کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ اس ضمن میں سی آئی اے کی ایک سابقہ آفیسر سارا آدم کے اس انٹرویو نے کافی حدتک واضح کردیا ہے جس میں انہوں نے دلائل کی بنیاد پر کہا ہے کہ بعض پڑوسی ممالک پاکستان کو عدم استحکام اور خانہ جنگی سے دوچار کرنے کے مختلف منصوبوں پر کام کررہے ہیں اور خیبرپختونخوا،بلوچستان میں جاری دہشت گردی اس سلسلے کی ایک بنیادی کڑی ہے۔

اس تمام تر منظر نامے میں پاکستان کی سیاسی قیادت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کا فرض بنتا ہے کہ وہ آپس کے اختلافات کو سائیڈ پر رکھ کر ملک کی سلامتی کے معاملے پر ایک پیج پر آکر پاکستان کا مقدمہ لڑیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے “عزم استحکام” پر آل پارٹیز کانفرنس بلائی ہے جس کے دوران قومی قائدین کو اعتماد میں لیا جائے گا تاہم سیاسی،عوامی اور صحافتی حلقوں کو حکومتی اقدامات کے علاوہ اپنی ذمہ داریوں کا خود بھی احساس اور ادراک ہونا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts