پاکستان میں شدت پسندی ، گوریلا تنظیموں ، عالمی پراکسیز، فارن پالیسی اور انسداد دہشتگری جیسے اہم معاملات اور ایشوز پر ہر دور میں سیاسی ، حکومتی اور عوامی حلقے تقسیم در تقسیم اور اختلاف رائے کی صورتحال سے دوچار رہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں ان سنگین مسائل پر نہ تو کوئی جامع پالیسی مرتب کی جاسکی اور نہ ہی تمام اسٹیک ہولڈرز نے ایک دوسرے کو اعتماد میں لیکر ملکی سیکورٹی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کا کوئی واضح لائحہ عمل تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔ پاکستان سال 1979 سے افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں حالت جنگ میں رہا اور اس جنگ سے اس کے دو انتہائی اہم صوبے یعنی خیبرپختونخوا اور بلوچستان سیاسی ، سماجی ، اقتصادی اور ثقافتی طور پر بہت زیادہ متاثر ہوئے تاہم طاقت کے مراکز نے اس جنگ کو اس سنجیدگی سے نہیں لیا جس کی ضرورت تھی ۔ افغانستان کے معاملات میں مبینہ مداخلت ، بعض مذہبی ، قوم پرست پارٹیوں کی غیر معمولی دلچسپی اور وہاں لڑی جانے والی جنگوں میں ملوث وار اکانومی نے پاکستان کے ریاستی اور سیاسی حلقوں کو مسلسل اپنی طرف کھینچ کر رکھا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرہ ہر دور میں نہ صرف تقسیم رہا بلکہ کنفیوژن کا شکار بھی رہا۔
یہ صورت حال کیوں درپیش رہی اور پاکستان سے کونسی غلطیاں ہوئیں ان دو سوالات کے جواب ڈھونڈنے کیلئے جب ملک کے بعض اہم قائدین ، متعلقہ ماہرین اور تجزیہ کاروں کی آراء معلوم کی گئی تو انہوں نے اپنے اپنے نقطہ نظر اور مشاہدات کو کچھ یوں بیان کیا۔
آفتاب احمد خان شیرپاؤ (سابق وفاقی وزیر داخلہ)
پاکستان کی خارجہ پالیسی اکثر مواقع پر ابہام سے دوچار رہی اور ہم نے ابتداء ہی سے بوجوہ امریکی بلاک کا حصہ بن کر سوویت بلاک کی ناراضگی مول لی ۔ 80 کی دہائی میں جب افغانستان میں سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی نے جنگ کی شکل اختیار کرلی تو ہم نے اس جنگ میں فریق بن کر یہ کہنا شروع کردیا کہ سوویت یونین افغانستان کے بعد پاکستان پر قبضہ کرکے گرم پانیوں تک پہنچنے کی کوشش کررہا ہے ۔ بعد میں ہم نے اس پالیسی کی بہت بھاری قیمت ادا کی اور پاکستان تشدد اور انتہا پسندی کی لپیٹ میں آگیا ۔ بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جو لوگ پاکستان کے اندر مخصوص قسم کی صورتحال کے تناظر میں ابتدائی ادوار میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے رویوں اور واقعات کا نشانہ بنے ان میں میرے بھائی اور صوبے کے ہردلعزیز رہنما حیات محمد خان سرفہرت رہے جن کو ایک سازش کے تحت 70 کی دھائی میں پشاور یونیورسٹی کے اندر ایک بم دھماکے میں شہید کردیا گیا اور ان کو اس پس منظر میں دہشتگردی کے شکار ہونے والے پہلے شہید کا نام دیا جاسکتا ہے ۔ان کی شہادت نے بہت عجیب صورتحال پیدا کی اور تلخیوں میں بہت اضافہ ہوا ۔ ناین الیون کے بعد پاکستان کو مزید پیچیدہ صورتحال سے دوچار ہونا پڑا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سمیت ملک کے متعدد دوسرے علاقوں میں بدامنی کی بدترین لہر چل پڑی اور امریکہ ، اس کے اتحادیوں نے خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے وہ کردار ادا نہیں کیا جس کی ضرورت تھی ۔ مجھ پر ذاتی طور پر تین چار خودکش حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں ہماری جماعت قومی وطن پارٹی کے بہت سے ساتھی شہید اور زخمی ہوگئے تاہم اس کے باوجود ہم امن اور پاکستان ، افغانستان کے درمیان بہتر تعلقات کے فروغ کے لیے ہر سطح پر فعال کردار ادا کرتے رہے اور اس ضمن میں کابل میں منعقد ہونے والے اس اہم جرگے کی مثال دی جاسکتی ہے جو کہ میری کوششوں سے پاکستان اور افغانستان کی اعلیٰ ترین قیادت اور قومی مشران کے اکھٹے کرنے کی غرض سے منعقد کیا گیا تھا اور اس میں عملی طور پر کوشش کی گئی تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان موجود بداعتمادی اور کشیدگی کو کم یا ختم کیا جائے مگر بعد کے واقعات اور حالات کے باعث موجود دوریاں ختم نہیں ہوئیں اور اس صورتحال سے انتہا پسند گروپوں نے فایدے اٹھاتے ہوئے دونوں ممالک کو بدترین قسم کی صورتحال سے دوچار کیا ۔ اس دوران نیشنل ایکشن پلان کی صورت میں ایک اچھی پالیسی سامنے آئی تھی مگر بوجوہ اس پر بھی پوری طرح عمل نہیں ہوا ۔ اپر سے گزشتہ تین انتخابات کے دوران ان پشتون قوم پرست اور مذہبی رہنماؤں کو اسمبلیوں سے باہر رکھا گیا جو کہ ان تمام معاملات پر قابو پانے کی کوششوں میں مددگار ثابت ہوسکتے تھے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کو سال 2021 کے بعد ایک نئی جنگ کے چیلنجز سے دوچار ہونا پڑا۔
سینیٹر مشتاق احمد خان (رہنما جماعت اسلامی)
پاکستان کے مختلف حکمران اور ادارے اس تمام صورتحال کے براہ راست ذمہ دار ہیں کیونکہ یہ عالمی طاقتوں سے اپنے ذاتی اور ادارہ جاتی مفادات کے تحفظ کے لیے مختلف اوقات میں سودے کرتے رہے ۔ ہماری خارجہ پالیسی پارلیمنٹ اور سیاسی اسٹیک ہولڈرز کی بجائے اسٹیبلشمنٹ بناتی اور چلاتی رہی اور اس کا یہ نتیجہ نکلتا رہا کہ ہم نہ صرف دنیا میں تنہا ہوتے گئے بلکہ ہم نے اپنے ملک کو پراکسیز اور جنگوں کا مرکز بھی بناڈالا ۔ اس تمام صورتحال کے اندر پشتونوں اور بلوچوں کو انتہائی منفی ریاستی طرز عمل کا سامنا کرنا پڑا اور جاری صورتحال سے یہ دو قومیں بری طرح متاثر ہوئیں ۔ ان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرتے ہوئے انہیں مظلوم قرار دینے کی بجائے انتہا پسند قرار دیا گیا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران جب پاکستان کے ان دو صوبوں میں ایک بار پھر حملوں کی تعداد میں خطرناک اضافہ ہوتا گیا تو اربوں کا بجٹ رکھنے والے سیکورٹی اداروں کی کارکردگی کیا رہی اور یہ ادارے عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام کیوں دکھائی دیئے۔
میاں افتخار حسین ( رہنما اے این پی)
1980 کے دوران جب افغانستان میں ایک جنگ کا آغاز کیا گیا تو ہمارے اکابرین نے اسے سوویت یونین اور امریکی ٹکراؤ کے تناظر میں ہاتھیوں کی لڑائی کا نام دیکر پاکستان کے حکمرانوں کو کھلے عام کہا کہ وہ اس جنگ میں فریق نہ بنے مگر ان کی بات نہیں مانی گئی اور بعد میں پاکستان خود اس جنگ کی لپیٹ میں آگیا ۔ ہم نے افغانستان میں جو غلط پالیسیاں اختیار کی تھیں آج ہم اس کے نتائج بھگت رہے ہیں اور اس جنگ میں نہ صرف یہ کہ تقریباً ایک لاکھ پاکستانیوں کی جانیں چلی گئی ہیں بلکہ گزشتہ چند برسوں سے لگ یہ رہا ہے کہ اب یہ جنگ پاکستان منتقل ہوگئی ہے اور اس تمام صورتحال کی ذمہ داری دوسروں کے علاوہ امریکہ پر بھی عائد ہوتی ہے جس نے دوحہ پراسیس کے دوران افغانستان کی منتخب حکومت اور عوام کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے طالبان پاکستان کے حوالے کردیا ۔ اس جنگ میں ایک سیاسی جماعت کے طور پر اے این پی نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں اور اس کے 1000 سے زائد کارکنوں اور لیڈروں کو شہید کردیا گیا جن میں میرا اکلوتا بیٹا راشد حسین شہید بھی شامل ہیں جن کو محض اس وجہ سے شہید کیا گیا کہ اس وقت میں صوبائی وزیر کی حیثیت سے ترجمان بن کر ریاست اور عوام کی وکالت اور ترجمانی کررہا تھا ۔ مجھ پر سال 2009 کے بعد تقریباً 4 بڑے حملے کئے گئے تاہم خدا کو کچھ اور منظور تھا اس لیے بچتا رہا تاہم حکومت کے خاتمے کے بعد مجھے ریکارڈ تھریٹ الرٹ جاری کرتے ہوئے سیاسی اور سماجی رابطے کاری سے روکا جاتا رہا اور اس پر ستم یہ کہ ایک پرو ٹیررسٹ پارٹی کو خیبر پختونخوا میں تین بار اقتدار میں لاکر دہشت گرد قوتوں کو مزید مضبوط بنایا گیا۔
بیرسٹر محمد علی سیف ( ترجمان خیبرپختونخوا حکومت)
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو بوجوہ گزشتہ کئی دہائیوں سے سنگین نوعیت کے سیکورٹی چیلنجز کا سامنا ہے اور اس صورتحال سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان واقعتاً بہت زیادہ متاثر ہوئے تاہم اس تلخ حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس تمام صورتحال کے تناظر میں پاکستانی ریاست سے بھی متعدد غلطیاں ہوئیں اور اب بھی بعض اہم سیاسی قوتوں اور اداروں کی پالیسیاں درست نہیں ہیں ۔ ایک تلخ تاریخی حقیقت تو یہ ہے کہ اس قسم کے حالات پر قابو پانے کیلئے ریاستیں مخالف فریقین سے مذاکرات کا راستہ اپناتی ہیں جس کی بڑی مثال دوحہ معاہدے کی شکل میں ہمارے سامنے ہے تاہم جب اسی عرصے کے دوران ہم نے ایک حقیقت پسندانہ پالیسی کے تحت افغان طالبان کی خواہش پر ٹی ٹی پی سے مذاکراتی عمل کا آغاز کیا تو اس پر نہ صرف شدید نوعیت کی تنقید ہوئی بلکہ ہمیں طالبان وغیرہ کا ساتھی قرار دیتے ہوئے اس پورے پراسیس کو ناکام بنادیا گیا ۔ ہم اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو جنگ کی بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے کیونکہ ہر ایسی کشیدگی اور جنگ کا خاتمہ مذاکرات ہی کے ذریعے ممکن ہے اور متعدد ممالک نے یہی راستہ اختیار کرکے امن کے قیام کو ممکن بنایا۔
محمد صادق خان ( سابق سفیر)
پاکستان کی افغان پالیسی بہت پیچیدہ رہی ہے اور بہتر تعلقات کے فروغ کی راہ میں بداعتمادی کے عنصر نے بہت منفی اور اہم کردار ادا کیا ہے ۔ پاکستان نے ہر دور میں حتیٰ المقدور کوشش کی کہ افغانستان بھارت یا بعض دیگر پاکستان مخالف قوتوں کی بجائے ہمارے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرے مگر یہ تمام کوششیں بوجوہ ناکام ہوئیں اور اس بداعتمادی اور کشیدگی کی بنیاد پاکستان کے قیام کے فوراً بعد افغانستان کے مخالفانہ طرزِ عمل کی شکل میں رکھی گئی تھی ۔ درمیان میں یہ تاثر پھیلا گیا کہ پاکستان اپنے اس پڑوسی ملک کو اسٹرٹیجک ڈیپتھ کی ایک پالیسی کے تحت ڈیل کررہا ہے حالانکہ پاکستان کی صرف یہ خواہش اور کوشش رہی کہ افغانستان میں پاکستان دوست حکومتیں ہو جو افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرنے دیں ۔ ناین الیون کے بعد پاکستان نے افغانستان کی جمہوری حکومتوں کا کھل کر ساتھ دیا اور ہم نے تعاون کا یہ سلسلہ دوحہ پیس پراسیس تک جاری رکھا مگر دوسری جانب سے پاکستان کو افغانستان کی تمام صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا ۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ سال 2021 کے بعد بھی پاکستان مسلسل کشیدگی ، بدامنی اور الزامات کی لپیٹ میں رہا اور اس کشیدگی سے دونوں ممالک کے عوام بری طرح متاثر ہوتے گئے۔
شیراز پراچہ ( ماہر عالمی امور )
پاکستان کی خارجہ پالیسی خصوصاً افغانستان کے ساتھ اس کے تعلقات کے تاریخی پس منظر کو کسی بھی لحاظ سے قابل ستائش یا کامیاب قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں افغانستان ، سوویت یونین اور بعض دیگر ممالک کے ساتھ جو پالیسیاں اختیار کی گئیں ان کے باعث جہاں ایک پاکستان میں شدت پسندی کو فروغ ملا اور پاکستان عالمی برادری کی نظروں میں بعد کے ادوار میں مشکوک قرار پایا بلکہ پاکستان کے سیکورٹی چیلنجز میں وقت گزرنے کے ساتھ مزید اضافہ ہوتا گیا ۔ پاکستان کو ایک ایسی ریاست کے طور پر پیش کیا گیا جو نہ صرف انتہا پسندی کو فروغ دیتا رہا بلکہ پڑوسیوں کی مشکلات کا سبب بھی بنتا گیا ۔ پاکستان نے بحیثیت ریاست اپنے بارے میں عام کیے گئے اس تاثر کے خاتمے کی کوششوں میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور اس کے نتیجے میں اس کے حالات خراب ہوتے گئے ۔ عالمی پراکسیز نے پاکستان کو مسلسل اپنی گرفت میں لیے رکھا اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اسے عالمی دباؤ کے علاوہ بدامنی اور اندرونی سیاسی خلفشار کا بھی سامنا ہے ۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو جس انداز میں ڈیل کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی اس نے جنرل عاصم منیر کی نسبتاً بعض اچھی پالیسیوں کے باوجود پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو بہت نقصان پہنچایا ۔ اس تمام صورتحال سے نمٹنے کیلئے جس نوعیت کی سنجیدگی ، پلاننگ اور قومی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے بدقسمتی سے وہ ہمیں نظر نہیں آرہی ہے۔
سینیٹر جنرل (ر )عبدالقیوم (دفاعی تجزیہ کار)
پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی کہ افغانستان سمیت تمام پڑوسیوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر اچھے تعلقات قائم کئے جائیں اور خطے کی جغرافیائی اہمیت کے تناظر میں علاقائی کشیدگی سے گریز کیا جائے تاہم بھارت اور اس کے بعض عالمی اتحادیوں نے پاکستان کی اس خواہش کو کمزوری سمجھ کر منفی طرز عمل اختیار کیا ۔ جہاں تک افغانستان کے ساتھ تعلقات کے سوال کا تعلق ہے یہ کبھی مثالی اور نارمل نہیں رہے اور اس کشیدگی کے بنیادی اسباب میں بھی بھارت کا منفی عمل دخل کارفرما رہا ہے ۔ بھارت نے ایک پالیسی کے تحت افغانستان کو ہر موقع پر پاکستان کے خلاف استعمال کیا اور اس کی تازہ مثال یہ دی جاسکتی ہے کہ ناین الیون کے بعد جب افغانستان میں حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتیں قائم ہوئیں تو دونوں نے پاکستان کی بجائے بھارتی مفادات کو مقدم رکھا اور جب دوحہ معاہدے کے نتیجے میں طالبان برسر اقتدار آگئے تو انہوں نے ٹی ٹی پی اور بلوچ شدت پسندوں کی سرپرستی کرکے پاکستان کی سیکورٹی کو خطرے میں ڈالنے کی پالیسی اختیار کی ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کو مختلف نوعیت کے چیلنجز کے باعث سیکورٹی مسائل کا سامنا ہے تاہم اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز ان تمام چیلنجر سے نمٹنے کی بھرپور قوت اور صلاحیت موجود ہے ۔ اس ضمن میں ہم اندرونی محاذوں پر متعدد کامیابیوں کے علاوہ بھارت ، ایران اور افغانستان کو دیئے جانے والے ردعمل اور رسپانس کی مثال دے سکتے ہیں ۔ پاکستان نہ تو کوئی کمزور ملک ہے ، نہ ہی اسے عالمی تنہائی کا سامنا ہے اور نہ ہی اسے اندرونی خلفشار کے ذریعے کمزور کیا جا سکتا ہے۔