GHAG

قوم پرستوں کا مستقبل

پاکستان کی سیاست میں قوم پرستوں کا کردار بہت اہم رہا ہے تاہم گزشتہ چند برسوں سے ان کی اہمیت دن بدن کم ہوتی جارہی ہے اور قوم پرست پارٹیوں کی جگہ مین سٹریم پارٹیاں لیتی دکھائی دے رہی ہیں ۔ اگر ایک طرف خیبرپختونخوا میں اے این پی سکڑرہی ہے اور اس کی جگہ تحریک انصاف اور پی ٹی ایم جیسی قوتوں نے لے رکھی ہے تو دوسری جانب بلوچستان میں قوم پرستوں کی جگہ بعض وہ گروپ لینے لگے ہیں جو کہ پارلیمانی سیاست کی بجائے مزاحمت کی سیاست کرنے لگی ہیں۔

خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے علاوہ سندھ میں بھی ماضی میں قوم پرستوں کا کافی ہولڈ رہا ہے مگر وہاں 1988 ءکے بعد پیپلز پارٹی نے ان کو کمزور کرتے کرتے تقریباً ختم کردیا اور اس وقت سندھی قوم پرستوں کی علامتی سرگرمیاں بھی دم توڑ چکی ہیں ۔ سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم نے جدید قوم پرستی کی بنیاد رکھ کر جب تشدد کا راستہ اختیار کیا تو پاکستان کی طاقتور ریاست نے چند برسوں قبل حرکت میں آکر اس کا خاتمہ کردیا اور اس وقت کراچی اور حیدر آباد کو منٹوں کے اندر ” لاک ” کرنے والے الطاف حسین لندن میں محصور ہوکر محض ایک ” مسخرے ” کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔

بلوچستان میں مینگل ، بگٹی اور اچکزئی فیملیز کا ہولڈ ختم ہو کر رہ گیا ہے تو خیبرپختونخوا میں ولی باغ کا تاریخی کردار اب محض چند “برسیاں” منانے اور قوم پرست شاعروں کی “مدح سرائی” تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔

روایتی طور پر ولی باغ کا آبائی حلقہ سال 2013 کے بعد پی ٹی آئی کے غیر معروف اُمیدواروں کی مسلسل جیت کی شکل میں منتقل ہو چکا ہے اور اس مسلسل شکست کو ولی باغ کے مکین اسٹیبلیشمنٹ کی ” کارستانی” قرار دے کر جان چھڑانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

پشاور شہر کی بلور فیملی بھی پارلیمانی سیاست سے کنارہ کش ہوکر اگر مگر کی پالیسی پر عمل پیرا دکھائی دے رہی ہے اور حالیہ مہینوں میں اس فیملی نے پارٹی چھوڑنے کی متعدد کوششیں کیں۔

اب اے این پی کے سابق مرکزی ترجمان زاہد خان کی سیاست سے کنارہ کشی کی اطلاعات بھی موصول ہونے لگی ہیں اور ان کی ” کنارہ کشی ” کو ولی باغ کے نوجوان مرکزی صدر کی پالیسیوں اور رویوں کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے ۔ دوسری طرف ہوتی ہاؤس کے وارث حیدر خان ہوتی بھی عملاً پارٹی اور سیاست کی سرگرمیوں سے غیر اعلانیہ طور پر لاتعلق ہوگئے ہیں ۔ کراچی پر “راج” کرنے والے اے این پی کے صوبائی صدر اور ولی باغ کے ” رشتہ دار ” شاہی سید بھی پارٹی کے مستقبل سے مایوس دکھائی دینے لگے ہیں اور وہ سیاست سے زیادہ اپنے کاروبار پر توجہ دے رہےہیں۔

صورتحال اتنی ” گھمبیر ” ہوچکی ہے کہ مرکزی صدر کو پیپلز پارٹی اور بعض” دیگر ” کی آشیر باد” سے بلوچستان کے کوٹے پر سینیٹر بنایا گیا تو دوسری جانب سابق وزیر اعلیٰ عطاء اللہ مینگل کے صاحبزادے اختر مینگل نے قومی اسمبلی کی اپنی واحد نشست سے چند روز قبل استعفیٰ دے دیا ہے۔

بلوچستان کے پشتون قوم پرست رہنما محمود خان اچکزئی کی پارٹی پختونخوا میپ بھی توڑ پھوڑ کی صورتحال سے دوچار ہوگئی ہے تاہم موصوف نے بدلتے حالات کا ادراک کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے خود کو فعال اور ” اِن ” رکھنے کا راستہ اختیار کرتے ہوئے مصنوعی سانس لینے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔

اس تمام تر منظر نامے میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے قوم پرست یا تو بوجوہ دم توڑ چکے ہیں یا پرانی پارٹیوں کی جگہ ان مزاحمت کاروں نے لے رکھی ہے جو کہ نئی نسل کی نمائندگی کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts