یہ بات طعنے دینے یا مذاق اڑانے کی بجائے قابل تعریف ہے کہ سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے 9 مئی کے واقعات اور حملوں کے پس منظر میں مشروط معافی کا اعلان کیا ہے۔ دیر آید درست آید کے مصداق اگر موصوف کو یہ ادراک اور احساس ہوچکا ہے کہ احتجاج کے نام پر ان کی پارٹی نے بوجوہ ریاست پر حملہ آور ہوکر غلطی کی ہے اور وہ بانی کی حیثیت سے ثبوت ملنے یا فراہم کرنے پر اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں تو اس کے اعتراف سے ان کی قد کاٹھ اور عزت میں اضافہ ہوگا۔
پاکستان کے عوام کی ایک بڑی اکثریت کے علاوہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے بھی ان کو محبت اور اعتماد کے علاوہ اقتدار سے بھی نوازا ہے ایسے میں ان کو اس امر کا احساس ہونا چاہئے کہ ان کی سیاسی اور اخلاقی ذمہ داریاں کیا بنتی ہیں اور اس بات کی نوبت کیوں آئی کہ نہ صرف ان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی بلکہ 9 مئی کے پرتشدد واقعات کن کے کہنے پر پیش آئے ؟
جہاں تک ان کی جانب سے پیش کردہ اس ” شرط ” کا تعلق ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں ان کی پارٹی کے کارکنوں کے ملوث ہونے کے ثبوت فراہم کئے جائیں تو اس ضمن میں ان کو ہم سے زیادہ اس بات کا علم ہے کہ لاتعداد ویڈیوز اب بھی انٹرنیٹ پر موجود ہیں اور درجنوں رہنماؤں اور کارکنوں کے وہ ویڈیوز بھی جو 8 اور 9 مئی کو انہوں نے خود ریکارڈ کرکے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیں ۔
پھر بھی اب یہ متعلقہ حکومتی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ” تکلیف ” گوارا کرتے ہوئے یہ ثبوت فراہم کریں ۔
عمران خان کو اس دوران اپنے چیئرمین بیرسٹر گوہر اور دیگر کے ان بیانات اور تقاریر کا بھی نوٹس لینا چاہیے جن کے دوران وہ وزیراعظم شہباز شریف سمیت متعدد دوسرے لیڈروں کو بنگلہ دیش کی حسینہ واجد کے انجام کا طعنے دینے کے علاوہ دھمکیاں بھی دیتے نظر آئے۔
اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ اس پارٹی نے 9 مئی کے واقعات اور ان کے ” نتائج” سے اب بھی کچھ نہیں سیکھا ہے ؟ وہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے جارحانہ انداز تخاطب اور ایک بار پھر اسلام آباد پر چڑھائی کے بیانات اور دھمکیوں پر بھی ذرا غور کریں کیونکہ بیک وقت دو مخالف پالیسیوں کی کوئی منطق کسی کو سمجھ نہیں آتی۔
جہاں تک 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے پاکستانی ریاست کے موقف کا تعلق ہے اس کے لیے بعض نئے اقدامات کے علاوہ گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ میں اختیار کئے گئے دوٹوک بیان کی مثال کافی ہے ۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے روایتی ہتھکنڈوں سے گریز کا راستہ اختیار کیا جائے کیونکہ سابق وزیراعظم اور ان کی پارٹی کے پاس آپشنز اور کارڈز محدود تر ہوگئے ہیں اور یہ تاثر بھی بہت عام ہے کہ اس پارٹی میں شامل بعض لیڈروں کی اپنی کوشش اور خواہش یہ ہے کہ عمران خان جیل سے باہر نہ نکلیں تاکہ ان لیڈروں کا ” کاروبار” چلتا رہے۔