GHAG

خیبرپختونخوا میں جاری کارروائیاں

خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر کے خوبصورت مگر شورش زدہ علاقے وادی تیراہ میں 20 اگست کے بعد انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز جاری ہیں جس کے نتیجے میں اب تک ایک اندازے کے مطابق شدت پسند گروپوں کے 40 کے لگ بھگ جنگجوؤں کو مارا جاچکا ہے جبکہ 20 کو زخمی اور گرفتار کردیا گیا ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر کیے جانے والے ان آپریشنز کا آغاز 20 اگست کے بعد کیا گیا جس کا مقصد علاقے کو پرامن بناکر عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہے اور یہ کہ سیکورٹی فورسز تیراہ سمیت تمام علاقوں میں عوام کی مدد سے امن کے قیام کے لیے پُرعزم ہیں۔

ہفتہ کے روز جاری کردہ بیان کے مطابق فورسز نے وادی تیراہ میں کارروائیاں کرتے ہوئے 12 دہشت گردوں کو ہلاک اور تقریباً 2 درجن کو شدید زخمی کردیا ۔ قبل ازیں اسی مہینے تیراہ میں ایک بڑی کارروائی کے دوران 22 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا تھا ۔ اس جھڑپ میں پاک فوج کے 4 جوان بھی شہید ہوگئے تھے۔

تیراہ ماضی میں دو تین دہشت گرد گروپوں کا مرکز رہا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل اس قسم کی اطلاعات موصول ہوئیں کہ کالعدم تنظیم لشکر اسلام اور جماعت الاحرار کے بعض کمانڈرز افغانستان سے درجنوں جنگجوؤں کے ہمراہ اس علاقے میں واپس آگئے ہیں جس کے بعد ان کارروائیوں کا آغاز کیا گیا۔

دوسری جانب گزشتہ روز سیکورٹی فورسز نے صوبہ بلوچستان کے  تین مختلف اضلاع کیچ ، ژوب اور پنجگور میں کارروائیاں کرتے ہوئے 5 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا ۔ بعض دیگر علاقوں سے بھی ایسی کارروائیوں کی اطلاعات موصول ہوئیں ۔ یہ سلسلہ 25 اور 26 اگست کو بلوچستان کے تقریباً 10 مختلف علاقوں میں کی جانے والی ان دہشت گرد حملوں کے بعد تیز کردیا گیا ہے جس کے نتیجے میں فورسز کے اہلکاروں کے علاوہ درجنوں غیر مقامی شہریوں کو بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا اور کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے ان حملوں کی ذمے داری قبول کرلی ۔ اس کے بعد وزیراعظم کی زیرصدارت نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کا اجلاس کوئٹہ میں منعقد ہوا جس میں آرمی چیف اور دیگر اعلیٰ حکام،وزراء شریک ہوئے اور فیصلہ کیا گیا کہ ٹی ٹی پی کی طرح بی ایل اے اور ایسے دیگر گروپوں کے خلاف بھی سخت کارروائیاں کی جائیں گی ۔ اس ضمن میں جمعہ کے روز اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کا اجلاس طلب کرلیا گیا جس میں وزیراعظم نے اپیکس کمیٹی کے فیصلوں پر کابینہ کو بریفنگ دی اور اعتماد میں لیا۔

اگلے روز وزیر داخلہ محسن نقوی نے سینیٹ کو بتایا کہ جو لوگ پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے اور خارجی قوتوں کے ساتھ ملکر ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں ان کو نشان عبرت بنادیا جائے گا تاہم جو لوگ پرامن رہ کر مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں ان کو سر آنکھوں پر بٹھایا جائے گا۔

اسباب و عوامل جو بھی ہو تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کو مذہبی انتہا پسندی جبکہ بلوچستان کو بیک وقت بلوچ علیحدگی پسندوں اور مذہبی دہشت گردی کی سنگین صورتحال کا سامنا ہے اور ان تمام سرگرمیوں کو عالمی اور علاقائی پراکسیز کی مکمل حمایت اور فنڈنگ حاصل ہے ۔ اس تناظر میں لگ یہ رہا ہے کہ ریاست کا صبر تمام ہوچکاہے اور عوام کے علاوہ ملک کی سلامتی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ریاست ہر سطح پر حرکت میں آگئی ہے ۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ جو لوگ پرامن طریقے سے اپنے حقوق کی جدوجہد کرتے آرہے ہیں ان کی بات سنجیدگی کے ساتھ سنی جائے اور ان کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں ۔ اس ضمن اس بات پر بھی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومتیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے تماشائی بننے کا رویہ ترک کریں کیونکہ ان دو حکومتوں کی دلچسپی اور کارکردگی کو اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts