ایڈیٹوریل
یہ بات قابل تشویش ہے کہ ہفتہ کے روز کرم معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی عملی کوشش کرتے ہوئے ٹل سے پاراچنار جانے والے حکومتی اس قافلے کی روانگی سے قبل ڈپٹی کمشنر جاوید محسود کے سکواڈ پر حملہ کیا گیا جس قافلے نے ادویات سمیت اشیاء ضرورت پاڑاچنار پہنچانا تھا۔ جاوید محسود کے قافلے پر شورش زدہ علاقے علی زئی کے گرد ونواح میں جدید ہتھیاروں سے فائرنگ کرکے نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں ان سمیت چار پانچ دیگر اہلکار شدید زخمی ہوگئے جن کو پہلے مقامی ہسپتالوں اور بعد میں پشاور منتقل کیا گیا۔ فائرنگ کے واقعے کے بعد قافلے کو واپس ٹل لایا گیا اور یوں کرم معاہدے کو ناکام اور سبوتاژ کرنے کی کوشش یا سازش وقتی طور پر کامیاب رہی۔
صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے روایتی بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ فائرنگ کرنے والے عناصر کو گرفتار کیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ صوبائی انتظامیہ نے گزشتہ دو تین مہینوں کے دوران اتنی “تباہی” اور کشیدگی کے باوجود کتنے شر پسندوں کو گرفتار کرلیا ہے اور اگر حکومتی رٹ موجود ہوتی تو اتنی بڑی تیاری اور امن معاہدے کے باوجود اتنی بڑی کارروائی کی جرات کون کرتا؟
تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ صوبائی انتظامیہ کو بعض دیگر علاقوں کی طرح کرم کی اصل صورتحال کا اب بھی کوئی ادراک نہیں ہے اور اس سنگین مسئلے کو مقامی مسائل کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے جان چھڑانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کرم دہشت گرد اور فرقہ ورانہ گروپوں کا مرکز رہا ہے اور آج اس خوبصورت علاقے کو بدامنی کی جس لہر کا سامنا ہے یہ کوئی سال دو سالوں کی بات نہیں ہے۔ اب کے بار بھی صوبائی حکومت پہلے دن سے ہی لاتعلقی کی پالیسی پر عمل پیرا رہی جس کے نتائج آج سب کے سامنے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ امن معاہدے کے باوجود ڈپٹی کمشنر کے سکواڈ کو نشانہ بنایا گیا جو کہ انتہائی تشویشناک بات ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کرم میں بہت منظم دہشت گرد گروپ موجود اور فعال ہیں۔ جب تک ایسے گروپوں کے خاتمے کے لئے بولڈ فیصلے نہیں کیے جاتے ایسے واقعات ہوتے رہیں گے اور ہم مذمت کرتے دکھائی دیں گے۔
صوبائی حکومت نے معاہدے پر عملدرآمد میں غالباً جلد بازی سے کام لیا، محمود جان بابر
اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار محمود جان بابر نے رابطے پر کہا کہ صوبائی حکومت نے معاہدے پر عملدرآمد میں غالباً جلد بازی سے کام لیا اور بعض اسٹیک ہولڈرز کی مرضی اور معاونت اس پراسیس میں شامل نہیں تھی۔ ان کے بقول حکومت خوش فہمی کا شکار رہی کہ معاملات نمٹائے گئے ہیں اس لیے حملہ آوروں نے اتنی بڑی کارروائی کی اور اس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ معاہدے پر فوری عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوئی بلکہ اس قافلے کو بھی واپس کرنا پڑا جس نے ضروری اشیاء لیکر ٹل سے پاڑاچنار جانا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس میں دو آراء ہیں ہی نہیں کہ کرم میں بعض دہشت گرد گروپ بہت فعال رہے ہیں اور اس تمام صورتحال کو اس چیلنج کے تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔
(5 جنوری 2025)