GHAG

سیاسی کشیدگی کے خاتمے کی کوششیں

ملک میں مختلف جماعتوں اور ریاستی اداروں کی جانب سے سیاسی اور معاشی استحکام کی کوششیں تیزی کے ساتھ جاری ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ حالات چند مہینوں میں معمول پر آجائیں گے۔ گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے 5 دسمبر کو پشاور میں اے پی سی بلائی ہے جس میں تمام پارٹیوں کے وفود شریک ہوں گے تو دوسری جانب وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی کی یکطرفہ پروپیگنڈا اور لاشوں کی سیاست سے متعلق اس پارٹی کے الزامات کے لیے تحقیقات کے عندیہ کے علاوہ ایک سیکورٹی ٹاسک فورس کے قیام کی منظوری دی ہے جس کا کام اسلام آباد کو آئندہ کے لیے احتجاج کے نام پر میدان جنگ بنانے کی ہر کوشش کا راستہ روکنا ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی بدترین قسم کے اندرونی خلفشار سے دوچار ہوگئی ہے اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور سمیت سب ایک دوسرے پر 24 نومبر کی احتجاجی کال کی ناکامی کا “ملبہ” ڈالنے کی مہم جوئی میں مصروف عمل ہیں۔ لگ یہ رہا ہے کہ یہ مقبول پارٹی اپنی “مقبولیت” کے بوجھ تلے خود دب جائے گی اور مزاحمتی سیاست کے رویوں کے اثرات کے باعث یہ پارٹی پاکستان کی طاقتور ریاستی نظام کے آگے ڈھیر ہوجائے گی کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سکڑتی چلی جارہی ہے اور اب تو لگ یہ رہا ہے کہ پی ٹی آئی صرف خیبرپختونخوا تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ یہاں بھی یہ پارٹی اس لیے نسبتاً فعال ہے کہ اس کے پاس صوبائی حکومت ہے اور اگر یہ حکومت نہیں رہتی تو اسے مزید نقصان پہنچے گا کیونکہ پارٹی مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوکر رہ گئی ہے اور اب اس کو متحد رکھنا بانی پی ٹی آئی کے بس کی بات بھی نہیں رہی۔

دوسری جانب گزشتہ دو تین دنوں میں جہاں ایک طرف اسٹاک ایکسچینج حالیہ تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھونے لگی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہونے لگا وہاں سندھ اور پنجاب میں روزانہ کی بنیاد پر ریکارڈ تعداد میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کی بنیاد رکھی گئی تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی حکومت صوبے کے معاملات اور مسائل حل کرنے کی بجائے پے درپے ناکامیوں کے باوجود اب بھی وفاق کے خلاف دھمکیاں دینے میں مصروف عمل دکھائی دیتی ہے جس کا حالیہ مظاہرہ لوگوں نے صوبائی اسمبلی کے گزشتہ رات منعقدہ اجلاس کے دوران وزیر اعلیٰ کے اشتعال انگیز تقریر کی صورت میں دیکھا جس میں انہوں نے حسب معمول نازیبا الفاظ استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔

یہ بات بہت عجیب ہے کہ اس تقریر کے چند گھنٹوں بعد وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا جس میں وزیراعلیٰ کی معاون خصوصی اور بشریٰ بی بی کی ترجمان مشعال یوسفزئی کو ایک ٹی وی انٹرویو کی “پاداش” میں ایک بار پھر ڈی نوٹیفائی کردیا گیا۔ اس پارٹی اور اس کی حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سیاست سے نابلد ایک کم عمر لڑکی نہ صرف پارٹی کے معاملات پر اس انداز میں اثر انداز ہوتی رہی ہے بلکہ وہ ایک کٹھن وقت میں بشریٰ بی بی کی ترجمان بھی ہیں۔ سیاسی اور صحافتی حلقوں کے علاوہ پارٹی کے اپنے سنجیدہ حلقے بھی مشعال یوسفزئی کو خیبرپختونخوا کی فرح گوگی کا “خطاب” دینے لگے ہیں مگر ان باتوں کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا جارہا ۔

اے این پی کے بعد جے یو آئی اور پیپلز پارٹی کے مرکزی لیڈروں نے بھی خیبرپختونخوا کی سیکیورٹی صورتحال پر بہت واضح سٹینڈ لیتے ہوئے اس کی تمام ذمہ داری پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت پر ڈالنے کا سلسلہ تیز کردیا ہے اور لگ یہ رہا ہے کہ صوبائی حکومت پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے “بعد از خرابی بسیار” کے مصداق کرم  کے معاملات دیکھنے کے لیے وزیراعلیٰ ہاؤس سے نکلنے کی تکلیف گوارا کی۔ شہباز شریف ، مولانا فضل الرحمان ، بلاول بھٹو اور ایمل ولی خان نے گزشتہ دو دنوں کے دوران جو واضح موقف اختیار کیا ہے اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ سیاسی قائدین دوسری اہم ریاستی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملکر ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے ایک نکاتی ایجنڈا پر متفق ہوکر آگے بڑھ رہے ہیں جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts