GHAG

تشدد اور بارگیننگ کی سیاست کا خاتمہ؟

پاکستان کو سال 2013 کے بعد جس نوعیت کی سیاسی بارگیننگ ، بلیک میلنگ اور تشدد کا سامنا رہا اس کی نہ صرف یہ کہ ماضی میں مثال نہیں ملتی بلکہ اس کے اثرات اس ملک کے مستقبل کے سیاسی اور ریاستی منظرنامہ پر بھی لمبے عرصے تک مرتب ہوتے رہیں گے۔ پراجیکٹ عمران اور اس سے جڑے “تبدیلی” لانے کی ایک خواہش کا تجزیہ ہر لحاظ سے ایک تلخ تجربہ ثابت ہوا اور اگر موجودہ اسٹیبلیشمنٹ نے نتائج کا پیشگی ادراک کرتے ہوئے رسک لیکر اس “بے لگام گھوڑے” کو قابو کرنے کی کوشش نہیں کی ہوتی تو اس میں دو آراء ہیں ہی نہیں کہ پاکستان متعدد سانحات سے دوچار ہوجاتا۔

اب یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ “تلخ اور ناکام تجربہ” متعدد ڈیزاسٹرز اور آفٹر شاکس کے بعد اپنے اختتام اور منطقی انجام تک پہنچنے والا ہے اور غالباً اسی کا نتیجہ ہے کہ مذکورہ “مقبول پارٹی” اپنے وجود اور لیڈرشپ کا “بوجھ” اٹھانے کی قابل بھی دکھائی نہیں دے رہی۔

گزشتہ روز اس پارٹی نے ترنول میں اعلان کردہ جلسہ عام کا اپنے ہی ہاتھوں جس انجام سے دوچار کیا اور پارٹی قیادت کے اندر شدید اختلافات کے علاوہ جس نوعیت کی بدنظمی، گھبراہٹ، بداعتمادی اور ڈپریشن دیکھنے کو ملی اس کی اس پارٹی کے کارکن تو ایک طرف مخالفین بھی توقع نہیں کررہے تھے۔

بانی چیئرمین کی ہمشیرہ نے جلسہ ملتوی کرنے کے بعد جو بیان دیا اس سے بہت سی چیزیں بلکل واضح ہوگئی ہیں اور ساتھ میں یہ بھی کہ خیبرپختونخوا کی حکومت اور اس کے “دبنگ نما وزیر اعلیٰ” کا جو کردار سامنے آیا ان تمام عوامل نے اس پارٹی کے لیے چھوڑی گئی محدود گنجائش کو بھی کم کردیا ہے اور یہ امکان دم توڑتا نظر آرہا ہے کہ ماضی کی طرح اب مقبولیت اور طاقت کا کوئی آپشن کسی ممکنہ امکان میں تبدیل ہوپائے گا۔

المیہ یہ ہے کہ خوش فہمیوں کے عادی اس پارٹی کے لیڈروں کو مسلسل ناکامیوں اور قلا بازیوں کے باوجود یا تو اب بھی شاید ریاست کی طاقت اور بدلی ہوئی پالیسی کا ادراک نہیں یا وہ اب بھی حسب عادت کسی “معجزہ” کی توقع لگائے بیٹھے ہیں۔ اسباب و عوامل جو بھی ہو مزید “نقصان” سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ نفرت، تشدد، پروپیگنڈا گردی اور انتشار کا رویہ ترک کرکے مہذب، شائستہ اور جمہوری طرزِ عمل اختیار کرکے مزید خوش فہمیوں اور کسی معجزہ کے انتظار کی روایت سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts