GHAG

فورسز کی کارروائیوں میں اضافہ اور پاک امریکہ مشقیں

عقیل یوسفزئی

گزشتہ چند دنوں کے دوران پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے خیبر پختونخوا کے تین چار مختلف علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہوئے دو  دہشت گرد کمانڈرز سمیت نصف درجن سے زائد مطلوب حملہ آوروں کو ہلاک کردیا جبکہ دو طرفہ جھڑپوں کے نتیجے میں ایک کیپٹن سمیت 7 سیکورٹی اہلکار شہید ہوگئے ۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں جھڑپوں اور کارروائیوں کے دوران محمد  اسامہ بن ارشد نامی نوجوان کیپٹن سمیت 3 دیگر سیکیورٹی اہلکار شہید ہوگئے جبکہ اسی دوران 2 مطلوب دہشت گرد بھی ایک جوابی کارروائی میں نشانہ بنائے گئے ۔ کیپٹن اسامہ شہید کی نماز جنازہ میں وزیراعظم ، وزیر دفاع اور آرمی چیف سمیت متعدد دیگر اعلیٰ سرکاری حکام خصوصی طور پر شریک ہوئے جبکہ دیگر شہداء کو بھی فوجی اور سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا ۔

اس سے اگلے روز پشاور کی سرحد پر واقع حسن خیل ( متنی ) میں سی ٹی ڈی اور دیگر متعلقہ اداروں کی کارروائی کے نتیجے میں ایک مقامی کالعدم گروپ کے خلاف ایک انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کے نتیجے میں ایک مشہور کمانڈر عبدالرحیم سمیت ان کے دو دیگر ساتھیوں کو ہلاک کردیا گیا ۔ کمانڈر عبدالرحیم کی سر کی  قیمت 80 لاکھ روپے مقرر کی گئی تھی اور سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کا گروپ 26 جون کو اسی علاقے میں ہونے والی کارروائی کے دوران  شہید ہونے والے کیپٹن حسن جہانگیر  اور دیگر کی شہادت میں ملوث تھے ۔

اس کے علاوہ وزیرستان ، پشاور ، لکی مروت اور بعض دیگر علاقوں میں بھی سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشن کیے گئے اور یہ سلسلہ تاحال مختلف علاقوں میں جاری ہے ۔  ان کارروائیوں سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز  ” عزم استحکام ” کے تحت دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اپنے اقدامات کو توسیع دینے کی پالیسی پر گامزن ہیں اور شاید اسی کا ردعمل ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور اس کے اتحادی گروپ بھی دباؤ بڑھانے کے لیے موقع پاکر حملے کرنے کا موقع ضائع نہیں کرتے ۔ تاہم ایک بات بالکل واضح لگ رہی ہے کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ اور وفاقی حکومت نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے اہم فیصلے کے تناظر میں نہ صرف ایک پیج پر ہیں بلکہ زیرو ٹاولرنس کی پالیسی پر بھی عمل پیرا ہیں ۔

اس دوران یہ خبر بھی زیر گردش رہی کہ پاکستان کے وزیر خارجہ اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اپنی ٹیم کے ہمراہ کابل کے اہم دورے پر روانہ ہونے والے ہیں جس کے دوران وہ کراس بارڈر ٹیررازم کے معاملے پر متعلقہ افغان حکام سے فیصلہ کن گفتگو کریں گے ۔ اس ضمن میں افغان عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ اگر پاکستان نے افغانستان سرزمین کو اس کے خلاف استعمال کرنے کے ثبوت فراہم کئے تو حکومت ملوث افراد یا گروپوں کے خلاف خود کارروائی کرے گی ۔ یہ وہی پرانی پالیسی اور جان چھڑانے والا موقف ہے جو کہ افغان عبوری حکومت اور افغان طالبان دہراتے آرہے ہیں کیونکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ٹی ٹی پی کی تمام اہم قیادت افغانستان ہی میں بیٹھ کر آپریٹ کرتی آرہی ہے ۔

دوسری طرف پہلی بار خیبرپختونخوا کے علاقے پبی میں قائم کاؤنٹر ٹیررازم سنٹر میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان انفینٹری رائفل مشقوں کا انعقاد کیا گیا جس میں دونوں ممالک کے افواج نے اپنی اپنی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھرپور شرکت کی ۔ اختتامی تقریب میں جنرل آفیسر کمانڈنگ 17 ڈویژن نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی جبکہ امریکی فوج کی 34 ویں ڈویژن کمانڈر میجر جنرل چارلس جی کیمپر نے بھی ان اہم مشقوں کا معائنہ اور مشاہدہ کیا ۔

دفاعی ماہرین یہ مشقیں کاؤنٹر ٹیررازم کی جوائنٹ اسٹریٹجی کے تناظر میں بہت اہم قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس اہم ایونٹ سے عرصہ دراز کے بعد پہلی مرتبہ امریکہ اور پاکستان کی مسلح افواج کو ایک د وسرے کو قریب لانے کا موقع فراہم کیا گیا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان بعض اختلافی معاملات کے باوجود خطے کی سیکیورٹی کو درپیش چیلنجز کے معاملے پر تعاون بڑھانے کی اعلیٰ سطحی کوششیں جاری ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts