پاکستان کے جھنڈے اور آئین کی بے حرمتی ناقابل برداشت ہیں، عادل شاہ زیب
جن عناصر نے پشتونوں کو لڑانے کی خواہش رکھی ان کو ناکامی ہوئی، محمود جان بابر
کالعدم ٹی ٹی پی نے مذکورہ ایونٹ کی حمایت کیوں کی یہ بڑا سوال ہے، بیرسٹر عثمان علی
صوبائی حکومت کی سرپرستی کے باجود پی ٹی ایم بڑا پاور شو نہ کرسکی، علی اکبر
ناقدین کی مائیک بند کرنے والا اسد قیصر بھی انقلابی بن گیا ہے، عرفان خان
پرامن طریقے سے مسائل کے حل کی جدوجہد بنیادی شرط ہے، شمس مومند
پشاور (غگ رپورٹ) خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے ممتاز صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے خیبر میں جاری کالعدم پی ٹی ایم کے جرگے کے پرامن انعقاد کو سراہتے ہوئے بعض سوالات کی شکل میں اپنے متعدد تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
عادل شاہ زیب، سینئر اینکرپرسن
سینئر اینکر پرسن عادل شاہ زیب نے کہا ہے کہ پی ٹی ایم خود کو پشتونوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی غیر سیاسی قوت کہتی آرہی ہے تاہم اس بات کی نشاندھی لازمی ہے کہ بعض عناصر اس کی آڑ میں نہ صرف پاکستان کے آئین، سلامتی اور پرچم کی مخالفت اور بے حرمتی کررہے ہیں بلکہ ان کا ایجنڈا کچھ اور دکھائی دیتا ہے۔ اس لئے ایسے عناصر کا راستہ روکنا لازمی ہے کیونکہ پاکستان مخالف نعرے بازی اور مہم جوئی کی کسی قیمت پر اجازت نہیں دی جاسکتی۔
محمود جان بابر، سینئر صحافی
سینئر صحافی محمود جان بابر کے مطابق یہ بات خوش آئند ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز نے اس ایونٹ کو پرامن بناکر ان عناصر کی خواہش اور کوشش کو ناکام بنادیا جو پشتونوں میں نفرت اور بدگمانی پیدا کرکے ان کو لڑانا چاہتے تھے۔ ان کے بقول پاکستان کے آئینی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے پرامن طریقے سے احتجاج ریکارڈ کرانا اچھی بات اور طرزِ عمل ہے۔
علی اکبر خان، سینئر تجزیہ کار
سینئر تجزیہ کار علی اکبر خان نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ تمام تر دعوؤں اور صوبائی حکومت، متعدد پارٹیوں کی حمایت اور انتظامات کے باوجود پی ٹی ایم کوئی بڑا ہجوم جمع کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی شاید کہ جرگے کے تیسرے اور آخری دن کے دوران بڑا کراؤڈ ممکن ہوسکے تاہم یہ کوئی متاثر کن پاور شو ثابت نہ ہوسکا۔
شمس مومند، مصنف، صحافی
مصنف اور صحافی شمس مومند نے کہا کہ پی ٹی ایم کا جرگہ اپنی تیاریوں کے حوالے سے بہت غیر منظم رہا اور اس طرح کی کوآرڈی نیشن اور تیاری نظر نہیں آئی جس کی ضرورت تھی۔ ان کے بقول پاکستان کے اندر مسائل کے حل کے لیے پرامن جمہوری طریقے سے آواز اٹھانے کی اجازت ملنی چاہیے اور یہ اچھی روایت ہے کہ بعض تلخ واقعات کے باوجود یہ سہولت پی ٹی ایم کو بھی ملی تاہم پی ٹی ایم کو بھی اپنے مقاصد سے متعلق بعض نکات اور الزامات کی وضاحت کرنی ہوگی۔
عرفان خان، سینئر صحافی، تجزیہ کار
باخبر تجزیہ کار عرفان خان کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں، صوبائی حکومت کی معاونت کے باوجود پی ٹی ایم کا یہ ایونٹ زیادہ متاثر کن اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا اور عوامی رسپانس کو قابل ذکر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ان کے مطابق اس ایونٹ سے دوسروں کے علاوہ بحیثیت اسپیکر قبائلی علاقوں کے معاملات سے متعلق قومی اسمبلی کے بعض ممبران کی مائیک بند کرنے والے اسد قیصر نے بھی دوغلے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت دھواں دار تقریر کی جس سے بہت سے سوالات کھڑے ہوئے۔
بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی، قانون دان، مصنف، تجزیہ کار
ممتاز قانون دان، مصنف اور تجزیہ کار بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی نے کہا ہے کہ ریاست کی ماضی کی غلط پالیسیوں سے قطع نظر ہم پشتونوں کو اپنی گریباں میں جھانک کر اس سوال کا جواب ڈھونڈنا پڑے گا کہ جس جنگ اور تباہی کا پشتونوں نے پی ٹی ایم کے اعداد وشمار کی روشنی میں سامنا کیا ہم نے بحیثیت مجموعی اس کا راستہ روکنے کی کتنی کوششیں کیں؟ ان کے مطابق اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ افغانستان اور پاکستان پر مسلط ان جنگوں میں ہمارا کتنا کردار رہا اور جن عالمی طاقتوں نے اس بربادی میں اہم کردار ادا کیا آج ہم ان کی کتنی مخالفت اور مذمت کرتے ہیں۔ ان کے بقول پی ٹی ایم یہ بتانے کی زحمت بھی کریں کہ کس نظریاتی وابستگی اور تعلق کی بنیاد پر پشتونوں کو اس حال تک پہنچانے والی ٹی ٹی پی نے اس ایونٹ کی نہ صرف حمایت کی بلکہ چند روز کے لیے سیزفائر کا باقاعدہ اعلان بھی کیا۔