GHAG

ماہرین ، وکلاء اور سیاسی قائدین کی جانب سے یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کا خیر مقدم

26ویں آئینی ترمیم اور تعیناتی سے سازشیں کم ہوسکیں گی، انجینئراحسان اللہ خان

عمران خان نے مفاہمت کا آخری موقع بھی گنوادیا ہے،بتول راجپوت

 آئینی بینچ کا اقدام بہترین فیصلہ ہے، نورعالم خان ایڈوکیٹ

یحییٰ آفریدی ایک باکردار، پروفیشنل اور میرٹ والے شخص رہے ہیں، قیصر بٹ

عطاء بندیال اور کھوسہ نے سپریم کورٹ کی ساکھ داؤ پر لگادی تھی،ہارون الرشید ایڈوکیٹ

پشاور (غگ رپورٹ) ممتاز سیاسی قائدین، وکلاء اور تجزیہ کاروں نے 26ویں آئینی ترمیم اور اس کی روشنی میں سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کا خیرمقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ ان اقدامات سے نہ صرف یہ کہ ادارہ جاتی کشیدگی میں کمی واقع ہوگی بلکہ عدلیہ کی ساکھ بھی بحال ہوجائیگی۔

انجنیئر احسان اللہ خان، ترجمان اے این پی

“سنو پختونخوا” سے گفتگو کرتے ہوئے اے این پی کے مرکزی ترجمان انجینئراحسان اللہ خان نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے بے لگام قسم کی سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کو جوابدہ بنانے کے علاوہ یہ کوشش کی گئی ہے کہ سیاسی معاملات سے سپریم کورٹ کے متنازعہ کردار کا راستہ روک دیا جائے۔ ان کے بقول سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں نے نہ صرف پارلیمنٹ اور منتخب حکومتوں کو کمزور کیا اور تصادم کی بنیاد رکھی بلکہ یہ ادارہ ایک فریق بنتے ہوئے اپنے کردار کے باعث متنازعہ بنا رہا۔ حالیہ ترمیم کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے اور اے این پی توقع رکھتی ہے کہ ایک مخصوص پارٹی نے سیاست اور معاشرت میں جو غلاظت پھیلائی ہوئی ہے اس کا خاتمہ ہوسکے گا اور فیز 2 کے دوران بعض دیگر درکار ترامیم بھی پاس ہوسکیں گی۔

نورعالم خان ایڈوکیٹ، سینئر وکیل، ماہرقانون

سینئر وکیل اور ماہر قانون نورعالم خان ایڈوکیٹ نے کہا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران سپریم کورٹ اور دیگر اعلیٰ عدالتیں جہاں بہت زیادہ متنازعہ ہوئیں وہاں عام لوگوں کو انصاف کی فراہمی کا بنیادی مقصد بھی بری طرح متاثر ہوا۔ ان کے مطابق خوش آئند بات یہ ہے کہ سیاسی اور آئینی معاملات نمٹانے کیلئے آئینی بینچ کا اقدام اٹھایا گیا ہے۔ اس اقدام سے سپریم کورٹ انصاف کی فراہمی پر توجہ دے پائے گی اور اس کی ساکھ بھی بحال ہو سکے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی معاملات کو سپریم اور ہائی کورٹس کی بجائے اسمبلیوں میں نمٹانے کا رویہ اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

بتول راجپوت، اینکرپرسن، تجزیہ کار

ممتاز اینکر پرسن اور تجزیہ کار بتول راجپوت نے اپنی بات چیت میں کہا کہ عدلیہ میں موجود بعض بنیادی نقائص دور کرنے پر بہت پہلے توجہ دی جانی چاہیے تھی کیونکہ جس طریقے سے 26ویں آئینی ترمیم کی پوری پراسیس کو ڈیل کیا گیا وہ مناسب طریقہ نہیں تھا۔ ان کے بقول پاکستان کے ادارہ جاتی کشیدگی نے بہت تلخی کو جنم دیا اب اس میں کمی لانے کی اشد ضرورت ہے اور اس کی زیادہ ذمہ داری ہماری قومی قیادت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی بنتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کو متعدد نفسیاتی اور سیاسی مسائل کا سامنا ہے اور انہوں نے عملی اقدامات کے علاوہ جو دو کتابیں لکھی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے علاوہ اور کسی کو نہ تو سنتے ہیں اور نہ مانتے ہیں ۔ آئینی ترمیم کی پراسیس کے دوران ان کو مذاکرات اور مفاہمت کا ایک اور موقع مل گیا تھا جو کہ انہوں نے ضائع کردیا۔

ہارون رشید، رکن پاکستان بار کونسل

رکن پاکستان بار کونسل ہارون الرشید نے کہا ہے کہ آصف سعید کھوسہ اور عطاء بندیال نے سپریم کورٹ کو نہ صرف سیاسی بنایا بلکہ اپنے رویوں اور فیصلوں سے اس ادارے کو متنازعہ بنانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کے بقول حالیہ اقدامات سے یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں کی ساکھ اور کارکردگی کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ ہوسکے گا۔

قیصر بٹ، سینئر صحافی

سینئر صحافی قیصر بٹ نے اپنی گفتگو میں کہا ہے کہ جسٹس یحیٰی آفریدی کی تعیناتی پورے ملک کے لیے ایک نیک شگون ہے کیونکہ وہ نہ صرف شاندار کیریئر کے حامل میرٹ پر یقین رکھنے والی شخصیت رہے ہیں بلکہ ان کو بعض دیگر کی طرح میڈیا پبلسٹی اور خودنمائی کا شوق بھی نہیں ہے ۔ ان کے مطابق نئے چیف جسٹس اپنے والد عمر خان آفریدی کے نقش قدم پر چلتے آرہے ہیں جو ایک ممتاز اور نیک نام بیوروکریٹ رہے ہیں اور لوگ ان کو بہت اچھے الفاظ سے یاد کرتے ہیں ۔ قیصر بٹ کے مطابق یحییٰ آفریدی پر سب نے اعتماد کا اظہار کیا ہے اور تحریک انصاف کو بھی چاہیے کہ وہ روایتی اپوزیشن کی بجائے نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کا خیرمقدم کرے تاکہ سپریم کورٹ کو ایک معتبر اور قابل اعتماد ادارہ بنایا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp