GHAG

شدت پسندی اور دہشت گردی کے بنیادی عوامل اور عالمی ذمہ داریاں

ڈاکٹر سید اختر علی شاہ

پاکستان اور خطے میں جاری دہشت گردی کے بہت سے عوامل ہیں اور مختلف اوقات میں ہماری ریاستی پالیسیوں کی غلطیوں کے علاوہ عالمی پراکسیز اور طاقتوں کا بھی اس کے فروغ میں اہم کردار رہا ہے تاہم اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کی قومی سلامتی کو واقعتاً خطرات لاحق ہیں اور ہمیں اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے درکار اقدامات کے علاوہ مستقل پالیسی اختیار کرنے کی بھی ضرورت ہے۔1989ءکو جب سوویت یونین ایک ” انقلاب” کو بچانے کے لیے افغانستان میں داخل ہوا تو امریکہ کے ساتھ ملکر پاکستان نے اس خطرے سے نمٹنے کیلئے افغان جہادی قوتوں کو پاکستان میں نہ صرف ٹریننگ دی بلکہ دیگر سوویت مخالف ممالک کے تعاون سے یہاں مدارس اور مذہبی جماعتوں کی زبردست سرپرستی بھی کی گئی۔ جمی کارٹر کے بعد جب ریگن امریکہ کے صدر بن گئے تو انہوں نے افغان مجاہدین کے اہم لیڈروں کو واشنگٹن مدعو کرکے ان کو ہم کتاب قرار دیتے ہوئے سپورٹ کیا جس کے بعد مختلف ممالک سے جہادی پاکستان اور افغانستان پہنچ گئے اور اس کے نتیجے میں جنگ نے نہ صرف شدت اختیار کی بلکہ پاکستان میں “مذہبی اور جہادی کارڈ” کے استعمال کا سلسلہ بھی شروع ہوا جو کہ تاحال جاری ہے۔اس سے قبل کی صورتحال کافی مختلف اور نارمل تھی۔

ہم سے دوسری غلطی یہ ہوئی کہ ریاستی اور سیاسی طور پر بیڈ گورننس اور انصاف کی عدم دستیابی کے باعث عوام حکمرانوں سے مایوس ہوتے گئے اور وہ ردعمل کے طور پر مختلف اوقات میں شدت پسندی کی جانب راغب ہونے لگے۔ اب بھی عوام کے بعض پروجہاد حلقے شدت پسند اور دہشت گرد گروپوں کو کسی نہ کسی شکل میں سہولت کاری فراہم کرتے ہیں اگر ایسا نہیں ہوتا تو ان گروپوں کے لیے اتنی آسانی سے آپریٹ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ریاستی اداروں نے ان عوامل پر درکار توجہ نہیں دی اور مزاحمت کار عوام کی مایوسی کا فایدہ اٹھاتے رہے۔

تیسرا مسئلہ یہ درپیش رہا کہ معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق مہیا نہیں کیے گئے اور مختلف ادوار کے اندورنی عدم استحکام نے ریاست کو جامع حکمت عملی کے مواقع فراہم نہیں کیے۔ اس تمام صورتحال کے دوران متعدد عالمی اور علاقائی طاقتوں نے بھی اپنا منفی کردار ادا کیا اور پاکستان پراکسیز کا مرکز بنتا گیا۔ بیڈ گورننس اور سیاسی، سماجی عدم استحکام نے معاملات کو مزید گھمبیر بنادیا جبکہ ہماری افغان پالیسی بھی وقتاً فوقتاً بدلتی رہی۔

نائن الیون سے قبل یہاں القاعدہ نے بھی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور اس کے نتیجے میں جب نائن الیون کے واقعات ہوئے تو اس کے بعد ہمیں ایک اور مشکل اور پیچیدہ چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکہ اور نیٹو نے اسامہ بن لادن اور القاعدہ کی تلاش اور خاتمے کے لئے خطے پر یلغار کردی اور اس صورتحال نے پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ معاملات اور چیلنجز کی ہیئت اور نوعیت بدل گئی تھی۔ امریکہ نے کوشش کی کہ اسامہ بن لادن کو ان کے حوالے کردیا جائے مگر آج کی طرح اس وقت کی افغان حکومت نے بھی اسامہ بن لادن کو مہمان قرار دیتے ہوئے یہ کہہ کر ان کی حوالگی سے انکار کیا کہ ایسا کرنا ہماری روایات کے منافی ہے۔

ایسے ہی دلائل آج کی افغان عبوری حکومت کی جانب سے پاکستان کو کالعدم ٹی ٹی پی کے حوالے سے بھی سننے کو مل رہے ہیں۔ امریکہ اور نیٹو نے افغان حکومت کا تختہ الٹ دیا اور 20 سال کی لمبی جنگ لڑی گئی مگر یہاں بھی شدت پسندی اور دہشت گردی کے عوامل ختم کرنے پر توجہ نہیں دی گئی اور صرف فوجی کارروائیوں پر انحصار کیا گیا جس کا نتیجہ بیس برسوں کی سرمایہ کاری کے بعد دوحہ معاہدے اور طالبان کے دوبارہ برسرِ اقتدار آنے کی صورت میں نکل آیا۔ یہ معاہدہ دراصل امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ہوا یہاں تک کہ اس میں اس وقت کی اشرف غنی حکومت کو بھی شامل نہیں کیا گیا۔

2021ء کے بعد خطے کی سیکیورٹی صورتحال مزید پیچیدہ ہوگئی اور پاکستان بدترین حملوں کی زد میں آگیا۔ افغان طالبان سے پاکستان کے بعض حلقوں نے جو توقعات وابستہ کی تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں بلکہ معاملات مزید خراب ہوتے گئے۔ کالعدم ٹی ٹی پی اور اس کے اتحادی گروپ پاکستان پر حملہ آور ہوئے کیونکہ ان کو افغان عبوری حکومت کی سرپرستی حاصل تھی تو دوسری جانب القاعدہ اور داعش خراسان سمیت تقریباً دو درجن مختلف شدت پسند گروپ بھی پھر سے فعال اور طاقتور ہونے لگے۔ یہ گروپ صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ پورے علاقے کے مختلف ممالک کے لئے خطرہ بن گئے ہیں اور اس بات پر بھی کسی کو کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ اگر جاری صورتحال پر قابو نہیں پایا گیا تو امریکہ اور یورپ بھی خطرے میں پڑ جائیں گے اور پڑوسی ممالک بھی مزید خطرے سے دوچار ہوں گے۔ اس قسم کے خدشات کا اقوام متحدہ اور معتبر امریکی، مغربی تھینک ٹینک بھی اظہار کرتے آرہے ہیں کہ متعدد دیگر ممالک کو بھی ان گروپوں سے خطرات لاحق ہیں۔

اگر پاکستان کی جانب سے افغانستان کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کو نائن الیون کے بعد کی امریکی اور مغربی طاقتوں کے اختیار کردہ پالیسی اور فارمولے کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کا ردعمل درست ہے کیونکہ افغانستان کی سرزمین واقعتاً پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے اور شدت پسند گروپوں کی اعلیٰ قیادت وہاں موجود ہے تاہم اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہماری اپنی کمزوریاں بھی دہشتگردی کے خلاف جاری کارروائیوں پر اثر انداز ہورہی ہیں اور ہم ان چیلنجز کو ماضی کے تلخ تجربات کے باوجود سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔

اس غلط فہمی سے بھی نکلنے کی اشد ضرورت ہے کہ شاید جاری دہشت گردی کسی مخصوص علاقے یا صوبے کا مقامی مسئلہ ہے یہ پورے ملک کا مسئلہ اور چیلنج ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے لازمی ہے کہ تمام عوامل اور محرکات کو سامنے رکھ کر کوئی جامع حکمت عملی اختیار کی جائے ورنہ معاملات مزید خراب ہوں گے اور پاکستان کی قومی سلامتی واقعتاً ایک بڑے خطرے سے دوچار ہوجائے گی۔

(ڈاکٹر سید اختر علی شاہ سابق سیکرٹری داخلہ اور انسپکٹر جنرل پولیس خیبرپختونخوا رہے ہیں۔ انہوں نے یہ تحریر خصوصی طور پر “غگ” کے لیے لکھی ہے)

(11 جنوری 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp