پی ٹی ایم نے ڈرون حملوں اور افغانستان کی ہلاکتوں کو نظر انداز کیوں کردیا ؟
مسنگ پرسنز اور مجموعی ہلاکتوں کی تعداد بھی مشکوک، منظور پشتین، محسن داوڑ پر طالبان کا اہم حلقہ برہم
منظور پشتونوں کو لڑانے کی سازش کررہے ہیں، سابق طالبان ترجمان کا الزام
انقلاب لانے کے ایونٹ میں 300 موبائل فون چوری کیے گئے،عرفان خان
پشاور (غگ رپورٹ) کالعدم پی ٹی ایم کا منعقد کردہ جرگہ بہت سے سوالات، تلخ یادیں اور خدشات اپنے پیچھے چھوڑ گیا جبکہ بعض اہم لیڈروں کے بیانات اور تقریروں کے علاوہ غیر مصدقہ ڈیٹا نے بھی اس جرگہ کی تیاری اور مقاصد پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔ کہا گیا کہ جاری جنگ یا دہشت گردی میں تقریباً 80 ہزار پشتونوں کو شہید کیا گیا ہے حالانکہ حکومت پاکستان کے علاوہ ڈیٹابیس پر کام کرنے والے مختلف معتبر آزاد تھنک ٹینکس کے مطابق پاکستان میں شہید ہونے والوں کی کل تعداد 85، 90 ہزار بنتی ہے جن میں فورسز کے شہداء کی تعداد 15000 سے زائد ہے اور دہشت گردی کے واقعات ماضی میں صرف پشتونوں یا خیبرپختونخوا تک محدود نہیں رہے بلکہ یہ پورے ملک کا مسئلہ رہا ہے۔
حیرت انگیز طور پر افغانستان میں نیٹو اور امریکی فورسز کے ہاتھوں شہید ہونے والے لاکھوں پشتونوں کا کوئی ذکر کیا گیا نا ہی ان غیر ملکی طاقتوں کی مذمت کی گئی۔ اسی طرح پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ماضی میں ہونیوالے ان ڈرون حملوں کے نتیجے میں شہید ہونے والے سویلین کا ذکر سامنے آیا جن کی تعداد نیویارک ٹائمز کی 2017 کی رپورٹس کے مطابق 2300 رہی۔
یہ دو عوامل اس لیے نظر انداز کئے گئے کہ پی ٹی ایم کو امریکہ اور بعض دیگر ممالک سے نہ صرف فنڈنگ ہوتی ہے بلکہ ان ممالک کا میڈیا بھی اس گروپ کا غیر اعلانیہ طور پر “پارٹنر” ہے۔
مسنگ پرسنز سے متعلق پیش کی گئی اعداوشمار میں بھی غلط معلومات سے کام لیا گیا اور ان کی تعداد ڈبل سے زائد دکھائی گئی حالانکہ اسی پی ٹی ایم نے مسنگ پرسنز کمیشن کو جو لسٹیں فراہم کی گئی تھیں ان کی بنیاد پر نہ صرف سینکڑوں ڈھونڈے گئے بلکہ جو غائب تھے ان کی باقاعدہ تفصیلات بھی پیش کی گئیں۔
خیبرپختونخوا کے وسائل بارے بھی کسی معتبر ریفرنس کے بغیر سوشل میڈیا اور بعض غیر متعلقہ حلقوں کی شئیر کی گئی تفصیلات بیان کی گئیں۔ پاک افغان بارڈر منیجمنٹ کے حوالے سے جو مطالبہ کیا گیا اس سے متعلق سابق افغان صدور حامد کرزئی اور ڈاکٹر اشرف غنی کے ادوار میں بعض ان اہم طے شدہ شرائط اور طریقہ کار کو نظر انداز کیا گیا جس میں امریکہ بھی ایک فریق تھا۔
سابق ایم این اے محسن داوڑ نے یہاں تک کہا کہ یہاں امن کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان کے آبائی وطن یعنی افغانستان کو موجودہ قیادت یا حکومت سے چھڑایا نہیں جاتا۔ ان کے اس بیان پر افغان طالبان کے حامیوں کے علاوہ متعدد دیگر نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر کہا کہ محسن داوڑ ایک الگ ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہیں۔ ایک اہم پرو طالبان شخص نے یہاں تک کہا کہ جس محسن کے ووٹ سے عمران خان کی حکومت گرائی گئی تھی وہ اب افغان حکومت کو گرانے کا احمقانہ خواب دیکھ رہا ہے۔
دوسری جانب کالعدم ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے ایک مختصر تحریر یا مضمون میں منظور پشتین پر الزام لگایا کہ وہ طالبان کی مخالفت کرکے پشتونوں خاص کر قبائلی علاقوں کے عوام کو لڑانے کی سازش کررہے ہیں جس کے نتائج خود پی ٹی ایم کے لیے بہتر نہیں ہوں گے۔
اس تمام صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے باخبر صحافی عرفان خان نے ایک ریڈیو پروگرام میں کہا کہ جس شخص نے اس جرگے کو زمین سمیت دیگر سہولیات فراہم کیں وہ لینڈ مافیا کا سرغنہ سمجھا جاتا ہے جبکہ متعدد دیگر جرائم پیشہ افراد اور اسمگلروں نے بھی اس جرگے کی اسپانسرشپ میں حصہ ڈالا۔ ان کے بقول پشتونوں کے لیے آزادی حاصل کرنے والے ان انقلابیوں کی حالت یہ رہی کہ تین روزہ جرگہ کے دوران تقریباً 300 شرکاء اور مہمانوں کے موبائل فونز چرائے گئے جبکہ درجنوں کے بٹوے اڑائے گیے جس کا وقتاً فوقتاً اسٹیج سے باقاعدہ اعلانات بھی کیے جاتے رہے۔