GHAG

کیا پاکستان تحریک انصاف منطقی موت سے دوچار ہونے کو ہے؟

خالد خان

پاکستان تحریک انصاف کے راہنماؤں نے اگرچہ فیصلہ کن جنگ سے حتی الامکان بھاگنے کی بہت کوششیں کی لیکن اب بانی تحریک انصاف عمران خان نے 24 نومبر کو اسلام آباد پر آخری ہلہ بولنے کا دو ٹوک فیصلہ سناتے ہوئے آخری معرکے میں دھکیل دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے ان راہنماوں نے جنہوں نے طویل عرصے تک پی ٹی آئی کے نام پر اپنی تقدیریں بدلنے کی کامیاب کوششیں کی تھیں اور مخلتف حیلوں بہانوں سے ریاست کے ساتھ ٹھکراؤ سے بھاگنے کی کوششیں کی تھیں اب یا تو چار و ناچار لڑیں گے اور یا دونوں ہاتھ کھڑے کرکے سر تسلیم خم ہونگے۔ بہرحال دونوں صورتوں میں پاکستان تحریک انصاف کی شکست اور اس شکست کے نتیجے میں ختم ہونا صاف نظر آرہا ہے۔ بانی تحریک عمران خان جہاں پر مکمل غیرسیاسی شخصیت ہیں وہاں پر وہ مردم شناس بھی قطعاً نہیں ہے۔ اوپر سے تماشا یہ کہ وہ خود اپنے عشق اور سحر میں گرفتار ہیں جنہیں اپنے آگے سے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا بھلا وہ وطن عزیز، اسکی سلامتی یا عوام کا  فلاح و بہبود ہو۔ بانی کے 27 سالہ سیاسی  جدوجہد کا ڈھنڈورا پیٹنے کے باوجود انہوں نے اس طویل عرصہ میں پارٹی کو تنظیمی طور پر جمہوری اور مضبوط نہیں بنایا۔ نہ ہی اس دوران عام کیڈر کی سیاسی تربیت اور ذہن سازی کی گئی۔ جس پارٹی کا آئین،منشور، تنظیم، پالیسیاں اور سیاست اسکے قائد کا گفت ہوا کرتی ہے ان تحریکوں اور سیاسی جماعتوں کا یہی انجام ہوتا ہے جو تحریک انصاف کا ہوچکا ہے اور ہونے جارہا ہے۔

صف اول کے بہت سارے راہنما تو بانی پر عتاب ٹوٹتے ہوئے قبلہ و کعبہ بدل چکے تھے۔ بعض نے تو روپوش ہونے میں عافیت سمجھی اور محفوظ ٹھکانوں میں پناہ گزین ہو کر عوام کو گمراہ کرتے ہوئے ریاست پر چڑھائی کے لیئے اکساتے رہے۔ بہت سوں نے کٹا کے انگلی شہیدوں میں نام کر دینگے کے اصول پر چلتے ہوئے مختصر اسیری کو بھی بہت کچھ جان کر کنارہ کش ہونے میں عافیت سمجھی۔ چند ایسے بھی ہیں کہ وہ جب سے قید میں ہیں جیلوں میں بیٹھ کر شکر بجا لا رہے ہیں کہ جان چھوٹی لاکھوں پائے۔

جو راہنما اس وقت اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں انہوں آخری حد تک مصلحت اور جادو گری سے کام لیتے ہوئے نہ صرف بانی کو دھوکہ دیا بلکہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کی آنکھوں میں بھی دھول جھونکتے رہے۔ انہی راہنماوں کی رات کی تاریکی میں ریاست کے پیر دبانے اور دن کی روشنی میں بھڑک مارنے کی روش نے انہیں سیاسی اور تحریکی لطائف میں تبدیل کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کارکنان کو بار بار شیر آیا شیر آیا کے نعروں پر نکالنے اور خود دم دبا کر بھاگنے والوں کے عوامی بھروسے کا اب یہ عالم ہے کہ اگر اس بار واقعی بھی وہ شیر آیا کا حقیقی نعرہ لگاتے ہیں تو کارکنان اسے گیدڑ بھپکی سے زیادہ کچھ بھی نہیں سمجھیں گے۔ پی ٹی آئی کے بہت سارے صف اول کے راہنماوں میں تو اتنی ہمت اور شرم نہیں تھی کہ جدوجہد میں حصہ نہ لینے کے لئے کوئی مناسب بہانہ تراشتے۔ شاید وہ اپنے تجربے اور وجدان کے مطابق اپنے ساتھ کو بانی کے لئے ڈوبنے والے کو تنکا کا سہارا سمجھ رہے تھے یا وہ اس حقیقت کو پا چکے تھے کہ کوئی اور کچھ جب  باقی رہے گا نہیں تو جواب طلبی کیسی؟

 اس سارے عرصے میں پی ٹی آئی کے صف اول کے راہنماوں کا عوامی اور تنظیمی رابطہ بھی ٹوٹ چکا ہے۔ تواتر کے ساتھ پچھلے چڑھائیوں اور جلسوں میں تنظیمی جدوجہد اور شرکت نہ ہونے کے برابر تھی جس پر مہر تصدیق صوابی کے آخری جلسے نے ثبت کر دی کہ جس میں صوابی کے کارکنان کی شرکت آٹے میں نمک کے برابر تھی۔

صوابی سے تحریک انصاف کے ایک مقامی نظریاتی راہنما سلیم جمال نے “غگ” سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس سارے عرصے میں سابقہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور انکے بھائی صوبائی وزیر پختونخوا ثاقب اللہ خان کا کردار بڑا شرمناک رہا ہے۔ سلیم جمال کے مطابق قیدی نمبر 804 کو نکالنے کے لیئے اسد قیصر اور اسکے وزیر بھائی نے نہ تو کوئی عوامی رابطہ مہم چلائی ہے، نہ ہی کوئی تنظیمی اجلاس منعقد کیا ہے اور نہ ہی کارکنان کو نکالنے کے لئے ٹرانسپورٹ اور قیام و طعام کا کوئی بندوبست کیا ہے۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت شریک ہوئے تھے مگر یہ شراکت کب تک رہی گی۔لوگ تھک چکے ہیں، لوگ ٹوٹ چکے ہیں۔ سلیم جمال کا کہنا تھا کہ اسد قیصر کی مالی اور سیاسی حیثیت تحریک انصاف کے طفیل بدل گئی مگر اس نے بدلے میں پارٹی اور بانی کو کچھ بھی نہیں دیا۔

صوابی سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے مقامی راہنما عنایت خان نے کم وبیش یہی الزامات ترکئی خاندان پر بھی لگائے جن کی پی ٹی آئی کی وجہ سے چاندنی ہے۔

تقریباً یہی صورتحال پورے خیبرپختونخوا میں ہے جہاں لیڈرشپ کا عوامی اور تنظیمی رابطہ گزشتہ طویل عرصے سے منقطع ہے۔ اور تو اور وزیراعلی خیبر پختونخوا سردار علی امین گنڈاپور کے اپنے آبائی ضلع اور ڈویژن ڈی آئی خان میں حالات اس سے بھی زیادہ ابتر ہیں جہاں پی ٹی آئی کارکنان اور تنظیمی عہدیدران کا سردار علی امین گنڈاپور پر نہ تو کوئی بھروسہ ہے اور نہ ہی اس کا ساتھ دینے کو تیار ہیں۔

دوسری جانب حکومت اور ریاست دونوں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کرچکی ہے اور اگر اسلام آباد پر چڑھائی کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی گئی تو یہ حرکت پاکستان تحریک انصاف اور اسکے بانی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts