بانی پی ٹی آئی عمران خان سے پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر کی زیرقیادت اہم وفد نے ہفتے کے روز اڈیالہ جیل میں ملاقات کی۔ وفد نے ان کی خیریت دریافت کرنے کے علاوہ ان سے ملک کے حالات خصوصاً مجوزہ آئینی ترامیم پر مشاورت کی اور ہدایات لیں۔ اب تک کی موصولہ اطلاعات کے مطابق بانی چیئرمین نے اس موقع پر ترامیم کی بجائے زیادہ گفتگو اپنی سہولیات اور رہائی سے متعلق امور پر مرکوز رکھی اور اس بات پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا کہ پارٹی نے ان کی ہدایات کے مطابق متاثر کن پاور شو کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ذرائع کے مطابق عمران خان نے پنجاب کے اپوزیشن لیڈر سمیت عمر ایوب اور بعض دیگر کو بھی وضاحت دینے کے لیے طلب کیا ہے تاہم جب اس سلسلے میں بیرسٹر گوہر نے ملاقات کی اجازت دلوانے کے لیے بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمان سے رابطے کیے تو دونوں “ثالثین” نے مزید معاونت سے معذرت کرلی۔ یاد رہے کہ تقریباً دو ہفتے بعد کی گئی اس ملاقات کی اجازت مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو زرداری کی سفارش پر دی گئی تھی۔ اس سے قبل تحریک انصاف کی جانب سے پروپیگنڈا کیا گیا کہ بانی کی جان کو خطرہ ہے اور یہ کہ خدانخواستہ ان کے خلاف کوئی سازش ہورہی ہے۔ بیرون ملک مقیم پی ٹی آئی کے حامی اکثر یو ٹیوبرز نے حد کرتے ہوئے یہاں تک پروپیگنڈا کیا کہ بانی پی ٹی آئی “زندہ” نہیں رہے یا یہ کہ ان کو قتل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس سے قبل مولانا کی خواہش پر حکومت نے کافی “نرمی” دکھانے کی پالیسی اختیار کرلی تاہم صورتحال اس وقت پھر زیرو ٹاولرنس پر چلی گئی کہ جب لاہور کے ایک گرلز کالج کے ساتھ ایک گارڈ کے ہاتھوں ایک خاتون یا طالبہ کی بے حرمتی کی نہ صرف فیک نیوز پھیلائی گئی بلکہ باقاعدہ مہم چلاتے ہوئے اسٹوڈنٹس کو بنگلہ دیش طرز پر پرتشدد کارروائیوں کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی جس پر مزید تلخیاں پیدا ہوگئیں اور حکومت پھر سے مزاحمت پر اتر آئی۔
تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی جہاں ایک طرف تنظیمی اختلافات سے دوچار ہوگئی ہے بلکہ یہ ریاست مخالف سرگرمیوں سے باز بھی نہیں آرہی اور اس کی تمام توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ ریاست کو مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے نہ صرف عمران خان کی رہائی پر مجبور کردیا جائے بلکہ ان کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کا کوئی راستہ بھی ہموار کیا جائے جو کہ ممکن نظر نہیں آتا۔
اس تمام صورتحال میں سپریم کورٹ کے غیر ضروری ریمارکس، محاذ آرائی پر مشتمل رویے اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جاری پروپیگنڈا نے مزید مشکلات پیدا کی ہیں جس کے متوقع نتائج کی جانب گزشتہ روز بلاول بھٹو زرداری نے واضح انداز میں نشاندہی بھی کی۔
سیاست میں جب ذاتیات کا فیکٹر شامل ہوتا ہے تو وہی نتائج نکلتے ہیں جو اس وقت سب کے سامنے ہیں اور اگر یہ سلسلہ اس طرح جاری رہا تو سسٹم کو نقصان پہنچانے کے خدشات مزید بڑھ جائیں گے اور ریاست کو “دیگر” آپشنز پر مجبوراً غور کرنا پڑے گا۔ اس صورتحال سے نمٹنے اور نکلنے کی ذمہ داری تمام اسٹیک ہولڈرز خصوصاً پاکستان تحریک انصاف پر عائد ہوگی کیونکہ ریاست بہت طاقتور چیز ہوا کرتی ہے اور پاکستان کی تاریخ بہت سے تلخ فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔