صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے ایک بیان اور ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ ان کی پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں ہے تاہم وہ جعلی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک عجیب و غریب منطق پیش کرتے ہوئے حکومت میں رہتے ہوئے ایک بار پھر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ مریم نواز اگر بھارتی حکومت یا وزیر اعلیٰ سے رابطے کرتی ہیں تو یہ کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی مگر جب خیبرپختونخوا کی حکومت ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی بات یا کوشش کرتی ہے تو اس پر تنقید کی جاتی ہے۔
جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے کاری یا مبینہ مذاکرات وغیرہ کی بات ہے اس کی تفصیلات وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہی ہیں اور بشریٰ بی بی، بانی پی ٹی آئی کی بہنوں کی رہائی کو اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے جس کے بارے میں یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ یہ تمام پراسیس بیرسٹر سیف کے باس علی امین گنڈاپور کی ” کاوشوں اور خواہشوں” کا بھی نتیجہ ہے جس کے بارے میں گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے ہیں۔ باخبر تجزیہ کاروں کا متفقہ طور پر ماننا یہ ہے کہ مجوزہ مذاکراتی عمل میں سابق وزیراعظم کی رہائی کا کوئی آپشن تاحال زیر غور نہیں ہے اور نچلی سطح پر یہ پالیسی اختیار کی گئی ہے کہ علی امین گنڈاپور ، بشریٰ بی بی اور سابق وزیراعظم کی بہنوں کے ذریعے ان کے قید لیڈر کو “سمجھانے اور سلجھانے” کی کوشش کی جائے۔ دوسری جانب وزیر اعلیٰ نے ایک بار پھر اسلام آباد پر چڑھائی کی دھمکی دے ڈالی ہے اور اس سلسلے میں یہ بھی کہا ہے کہ اب کے بار وہ سروں پر کفن باندھ کر نکلیں گے ۔ وزیر اعلیٰ اس سے قبل ایسی ایونٹس کے دوران پراسرار طریقے سے “غائب” ہوکر کیا کچھ کرتے آرہے ہیں اس کا سب کو علم ہے اور سب یہ بھی جانتے ہیں کہ عمرایوب ، اسد قیصر ، حماد اظہر اور شیخ وقاص وغیرہ ایسے مواقع پر کیوں غائب رہتے ہیں وہ بھی کوئی چھپی بات نہیں ہے تاہم وزیر اعلیٰ کو یہ ٹاسک اس لیے دیا جاتا ہے کہ وہ سرکاری ملازمین اور وسائل کا بے رحمانہ استعمال کرتے ہوئے چند ہزار کارکن جمع کرنے کی “صلاحیت” رکھتے ہیں ۔ معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ چند مہینوں کے دوران خیبرپختونخوا کے سرکاری خزانے سے ان سیاسی سرگرمیوں پر تقریباً 20 کروڑ روپے خرچ کیے جاچکے ہیں مگر تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ پارٹی کوئی ایک بھی قابل ذکر ایونٹ کرانے میں کامیاب نہ ہوسکی بلکہ ہر ایونٹ کے بعد مزید اندرونی توڑ پھوڑ کا شکار ہو جاتی ہے ۔
رہی بات بیرسٹر سیف کی مریم نواز پر ہونے والی تنقید کی تو اس ضمن میں جو تاثر بہت عام ہے وہ یہ ہے کہ موصوف اب بھی افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے ساتھ رابطوں میں ہیں اور وہ صوبے کا ترجمان رہ کر اس رابطہ کاری کا باقاعدہ کریڈٹ بھی لیتے ہیں۔ بھارتی وزیراعلیٰ کو خط لکھنے اور ٹی ٹی پی کے ساتھ خلاف آئین مذاکرات کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
ٹی ٹی پی نے گزشتہ ایک ماہ کے دوران صرف خیبرپختونخوا میں 46 دہشت گرد کارروائیاں کی ہیں جس کے نتیجے میں 200 سے زائد جوانوں کو نشانہ بنایا گیا اور 70 کے لگ بھگ عام شہری بھی شہید کیے گئے ۔ یہ وہی ٹی ٹی پی ہے جس کے ساتھ بیرسٹر سیف نے قیدی نمبر 804 اور جنرل (ر) فیض حمید کے کہنے پر کابل میں مذاکرات کئے اور سینکڑوں کو نہ صرف معافیاں دی گئیں بلکہ افغانستان سے لاتعداد جنگجووں کو واپس لاکر ٹھکانے فراہم کیے گئے۔ انہی لوگوں نے پھر خیبرپختونخوا کو بدترین حملوں کا نشانہ بنانے کا آغاز کیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اگر صوبائی حکومت کے ترجمان ان حملوں پر کوئی بریفنگ وغیرہ دینے کی تکلیف گوارا کرلیں تو زیادہ بہتر ہوگا ۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کو بدترین نوعیت کے اندورنی اختلافات کا سامنا ہے اور بشریٰ بی بی کی رہائی اور سیاسی رابطوں کے بعد ان اختلافات میں خیبرپختونخوا کی سطح پر مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔ بشریٰ بی بی کی “ترجمان” مشعال یوسفزئی کو گورنر کے علاوہ خود اپنی پارٹی کے بعض رہنما “فرح گوگی پارٹ 2 ” کا نام دیکر عجیب و غریب قسم کی باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی تسلسل میں گزشتہ روز یہ خبر بھی سامنے آئی کہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی براہ راست ہدایات پر سابق صوبائی وزیر عاطف خان پر مالم جبہ اسکینڈل کا ایک پرانا کیس کھولنے کا نوٹس جاری کردیا ہے۔ وزیراعلیٰ کو شاید کسی نے یہ نہیں بتایا کہ مذکورہ اسکینڈل میں صرف عاطف خان ملوث نہیں تھے بلکہ اس میں مراد سعید ، زلفی بخاری ، شاہ فرمان ، اعظم خان اور متعدد دیگر اہم لیڈرز بھی ملوث رہے ہیں۔ اگر وزیر اعلیٰ واقعی ایسی کوئی انکوائری کرانا چاہتے ہیں تو وہ ہمت کرکے باقی کو بھی اس انکوائری میں ڈال دیں۔ ساتھ میں وہ بی آر ٹی اور بلین ٹری سونامی کے سکینڈلز کی رپورٹس بھی منگوا کر کوئی کارروائی کریں ۔
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ عاطف خان کے خلاف اس انکوائری کا مقصد اس سے بڑھ کر کچھ نہیں کہ عاطف خان کو وزیراعلیٰ اور اور اس کی کیچن کیبنٹ کی سیاسی مخالفت سے باز رکھا جائے۔ عجیب بات یہ بھی ہے کہ اس تمام گیم کو بشریٰ بی بی کی آشیرباد بھی حاصل ہے جن کے بارے میں پی ٹی آئی کا بیانیہ یہ رہا ہے کہ وہ “غیر سیاسی پردہ دار” خاتون ہیں۔