سابق وزیر اعظم عمران خان نے جنرل ( ر ) فیض حمید کی خلاف آرمی ایکٹ کے تحت ہونے والی کارروائی سے پارٹی کے دیگر لیڈروں کی طرح بلاواسطہ طور پر لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ آرمی کا اندرونی معاملہ ہے حالانکہ ان کو علم ہے کہ جاری کارروائیوں کے پیچھے اگر ایک طرف ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کا معاملہ کارفرما ہے تو دوسری جانب جنرل فیض حمید اور ان کے ” نیٹ ورک” کی پرو پی ٹی آئی رابطوں اور کردار کو بھی اس تمام معاملے میں بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔
پی ٹی آئی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتی کہ دوسرے والے معاملے کے ڈانڈے 9 مئی کے واقعات سے بھی جوڑے گئے ہیں اور یہ کارروائی اس وقت عمل میں لائی گئی جب ان کے ترجمان رؤف حسن کے دفتر سے ” مواد ” برآمد کیا گیا اور اس مواد میں نہ صرف اس ” نیٹ ورک کے مشکوک سہولت کاری کے ثبوت ہاتھ آگئے بلکہ یہ بھی ثابت ہوا کہ مذکورہ پارٹی ریاست مخالف سرگرمیوں میں کن کن کے ساتھ رابطے میں تھی ۔
اس تناظر میں مزید کارروائیوں کی جو اطلاعات زیر گردش ہیں اس کو دیکھتے ہوئے نہیں لگ رہا کہ پی ٹی آئی جنرل ر فیض حمید سے لاتعلقی کی پالیسی اختیار کرنے پر اس تمام صورتحال کی آفٹر شاکس سے خود کو بچانے میں کامیاب ہوجایے گی کیونکہ کھیل تو ابھی شروع ہوا ہے ۔
سیاسی ہمدردی اور اس کی آڑ میں کسی بڑی سازش کی تیاری میں بہت بنیادی فرق ہوتا ہے اور یہاں سازشوں کا پورا نیٹ ورک سامنے آرہا ہے جس میں فوج کے اندر بغاوت کرانے کی سنگین سازش کا معاملہ بھی موجود ہے ۔ ایسے میں مذکورہ نیٹ ورک کے جتنے بھی کردار سامنے آتے رہیں گے عمران خان اور فیض حمید کے لیے مشکلات بڑھتے جائیں گے ۔
دونوں نے بوجوہ اپنے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے لیے سسٹم کو داؤ پر لگانے کے علاوہ ریاست کو مذاق سمجھ کر جو ” کام ” کیے ہیں اس کا نتیجہ یہی نکلتا تھا جو کہ نکلتا دکھائی دے رہا ہے اور اب ایک دوسرے سے ” لاتعلقی” کے لفظی وضاحتوں کا کوئی فایدہ نہیں ہوگا ۔
اس تمام تر منظر نامے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ فوج کی جانب سے اتنے بڑے اقدام کے بعد حکومت میں شامل پارٹیاں بھی خود احتسابی کا کوئی عمل شروع کریں تاکہ عوام کو ایسے کرداروں کے علاوہ ان سیاسی کرداروں کی پس پردہ سرگرمیوں کا پتہ چلے جو کہ سازشوں کا حصہ بنتے ہیں اور سول سپریمیسی یا ڈیموکریسی کا ” ہتھیار” استعمال کرتے ہوئے لابنگ میں مصروف عمل رہتے ہیں ۔