GHAG

بعض اہم کمانڈرز نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال کر دفاع نہیں کیا، ڈاکٹر اشرف غنی

رشید دوستم ، عطاء محمد نور اور بعض دیگر نے مزاحمت ہی نہیں کی، سابق افغان صدر

مشاورت کے دوران فیصلہ ہوا تھا کہ طالبان کا مقابلہ کیا جائے گا، سابق افغان صدر کی گفتگو

پشاور (غگ رپورٹ) افغانستان کے سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے ایک خصوصی انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ دوحہ معاہدے پر ان کی حکومت کے تحفظات کے تناظر میں اگست 2021ء کے پہلے ہفتے میں کی جانے والی حکومتی مشاورت کے دوران طے پایا گیا تھا کہ افغان فورسز طالبان کے داخلے کی کوششوں کے وقت کابل سمیت پورے ملک میں بھرپور مزاحمت کریں گی مگر 7 اگست کے بعد شمالی افغانستان کے متعدد اہم صوبوں میں طالبان کسی مزاحمت کے بغیر قابض ہوگئے اور رشید دوستم،عطاء محمد نور سمیت بعض دیگر اہم کمانڈروں اور عہدیداروں نے مزاحمت کرنے یا جنگ لڑنے کی علامتی کوشش بھی نہیں کی جس کے باعث حکومت کے مزاحمت والے متفقہ فیصلے پر عملدرآمد ہی نہیں ہوسکا اور بہت عجیب وغریب قسم کی صورتحال پیدا ہوگئی۔

ان کے بقول افغانستان کی سکیورٹی فورسز اور ان کے کمانڈروں نے برسوں تک ریاست اور اس کے اتحادیوں سے بہترین قسم کی مراعات حاصل کیں تاکہ ملک اور حکومت کا دفاع کیا جاسکے مگر وقت آنے پر بعض اہم عہدیداروں نے نہ صرف یہ کہ بہت مشکوک کردار ادا کیا بلکہ اس متفقہ فیصلے پر عملدرآمد بھی نہیں کیا جس کے مطابق فورسز نے طالبان کے داخلے کی کوششوں کے دوران مزاحمت اور جنگ کرنی تھی۔

ایک سوال کے جواب میں سابق صدر نے کہا کہ جب شمالی افغانستان سے مزاحمت نہ ہونے کی اطلاعات ان کو موصول ہوئیں تو انہوں نے وہاں خود جاکر اہم کمانڈروں سے ملاقات اور مشاورت کی مگر بات نہیں بنی اور متعدد شمالی صوبے دنوں کے اندر طالبان کے قبضے میں چلے گئے جس کے بعد کہیں سے بھی مزاحمت ممکن نہ ہوسکی اور معاملات حکومت کے ہاتھ سے نکل گئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts