صوبائی حکومت کی جانب سے پابندی لگانے کے باوجود پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے جرگے میں شرکت کرنے والے سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائیوں کی تیاری کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں متعلقہ وزارتوں اور محکموں کے علاوہ بعض انٹیلی جنس اداروں نے بھی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق سینکڑوں سرکاری ملازمین نے نہ صرف پی ٹی ایم کے جرگے میں شرکت کی بلکہ اس ایونٹ کے لیے باقاعدہ مہم چلائی اور متوقع کارروائی سے خوفزدہ ہونے کی بجائے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر فوٹوز اور ویڈیوز بھی شیئر کیں۔
ذرائع کے مطابق تقریباً 250 سے زائد سرکاری ملازمین کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان سب کے نام طریقہ کار کے مطابق شیڈول فورتھ میں ڈال دیے گئے ہیں۔ تقریباً 20 سرکاری ملازمین ایسے ہیں جنہوں نے نہ صرف مختلف کیمپس یا خیموں میں پی ٹی ایم کے حق میں باقاعدہ تقاریر کیں بلکہ بعض ان غیر ملکی ریڈیوز سے گفتگو بھی کی جو پی ٹی ایم کے جرگہ کی آڑ میں ریاست کے خلاف باقاعدہ مہم چلانے میں مصروف عمل تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت سے ہے اور ان تمام کی پروفائلنگ کی جارہی ہے۔
انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بھی جرگے میں شرکت کرنے والے سرکاری ملازمین کی مانیٹرنگ کی رپورٹس مکمل کرکے متعلقہ محکموں کو بھیج دی ہیں اور ان کو اعلیٰ حکام کی جانب سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مجوزہ کارروائی کی فیڈ بیک سے آگاہ کریں۔
دوسری جانب مذکورہ تنظیم کے سربراہ سمیت درجنوں دیگر نے مین سٹریم میڈیا کے علاوہ متعدد یوٹیوبرز اور صحافیوں کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کردی ہے اور اس مہم جوئی میں صحافیوں کو غدار اور ٹاوٹس قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا۔ متعدد معتبر تجزیہ کاروں کے نام لے کر ان کو گالیوں اور دھمکیوں کا باقاعدہ سلسلہ جاری ہے اور اس مہم میں بعض ان غیر ملکی میڈیا اداروں کے ریاست مخالف میڈیا پرسنز جان بوجھ کر غیر ذمہ دارانہ کردار ادا کرتے دکھائی دیے جنہوں نے ایک باقاعدہ پلاننگ کے تحت پی ٹی ایم کے ریاست مخالف بیانیہ کو عوام پر مسلط کرنے کی پالیسی اختیار کی۔
ایک اور سرکاری ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ بعض پرو پی ٹی ایم میڈیا پرسنز نے ڈیٹا اکھٹا کرنے میں بھی اپنا حصہ ڈالا اور ایونٹ کے اختتام کے باوجود اپنی “مہم جوئی” کو جاری رکھا۔