GHAG

گورنر راج: آئینی ضرورت یا سیاسی چال؟

اے وسیم خٹک

پاکستان کا آئین آرٹیکل 234 کے تحت گورنر راج کے نفاذ کی اجازت دیتا ہے، جو کسی بھی صوبے میں اس وقت نافذ کیا جا سکتا ہے جب آئینی مشینری ناکام ہو جائے اور عوامی مسائل سنگین صورت اختیار کر لیں۔ گورنر راج ایک غیر معمولی آئینی قدم ہے، جس کے تحت صوبائی حکومت معطل کر دی جاتی ہے اور گورنر، وفاق کے زیر انتظام، صوبے کی باگ ڈور سنبھالتا ہے۔ ماضی میں اس اقدام کا نفاذ انتظامی بحرانوں کے دوران دیکھا گیا ہے، لیکن اس کے سیاسی پہلوؤں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

خیبر پختونخوا کی موجودہ صورتحال گورنر راج کے ممکنہ نفاذ پر ایک بار پھر بحث کو ہوا دے رہی ہے۔ صوبے میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی کیفیت، دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور شدت پسند عناصر کی منظم ہونے کی اطلاعات حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا رہی ہیں۔ بپت عرصہ سے یہ بازگشت سنائی دے رہی تھی مگر گورنر اس بات کو مسترد کرتے ۔مگر پی ٹی آئی کے حالیہ آخری کال کے بعد سے یہ آواز پھر سے نقار خانوں سے باہر آگئی اور آخری اطلاعات تک وفاقی کابینہ نے اس کی منظوری بھی دے دی ہے اب صوبائی اسمبلی کے پاس بس گنے چنے لمحات ہی کہہ سکتے ہیں کہ رہ گئے ہیں کیونکہ امن و امان کی خرابی خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوئے ہیں ۔دہشت گردی کے واقعات اور بڑھتی ہوئی بے چینی عوام میں خوف پیدا کر چکی ہے  جو گورنر راج کے نفاذ کے لئے ایک  ممکنہ جواز ہے۔ اگر حکومت عوام کی جان و مال کی حفاظت میں ناکام ہو رہی ہو، تو آئین کے تحت وفاقی حکومت کے پاس مداخلت کا جواز موجود ہوتا ہے اور وہ اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں سیاسی بحران اور حکومت کی نااہلی نے مسائل کو مزید پیچیدہ کر کے رکھ دیا ہے  حکومت کی کارکردگی پر عوامی اور اپوزیشن کے اعتراضات بڑھ گئے ہیں اور ان کے حل کے لیے کوئی مؤثر حکمت عملی بھی نظر نہیں آ رہی۔ اگر عوامی مسائل کے حل کے لیے جمہوری عمل ناکام ہو، تو وفاقی حکومت آئینی اختیارات کے ذریعے قدم اٹھا سکتی ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں گورنر راج کا نفاذ کئی بار کیا گیا ہے۔ 1973 میں بلوچستان اور 1998 میں سندھ میں یہ اقدام انتظامی بحرانوں کے دوران لیا گیا، مگر ان کے نتائج سیاسی طور پر متنازع اور عوامی اعتماد کو کمزور کرنے والے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ گورنر راج کو آخری حربے کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے، تاکہ جمہوری اصولوں کو پامال نہ کیا جائے۔

خیبر پختونخوا کی موجودہ صورتحال میں گورنر راج کا نفاذ ناگزیر دکھائی دیتا ہے لیکن اس اقدام کو عوامی فلاح و بہبود اور امن و امان کی بحالی کے لیے استعمال کرنا چاہیے نہ کہ سیاسی مقاصد کے لیے۔ یہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کے تحت گورنر راج کے فیصلے کو شفافیت اور غیرجانبداری سے نافذ کرے تاکہ عوامی اعتماد بحال ہو اور صوبے کے مسائل کا دیرپا حل تلاش کیا جا سکے۔

یہ اقدام جمہوریت کو وقتی طور پر متاثر کر سکتا ہے لیکن عوامی تحفظ اور گورننس کی بحالی کے لیے ضروری ہو سکتا ہے۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس صورتحال کو ایک موقع کے طور پر لے اور ایسے اقدامات کرے جو صوبے میں نہ صرف امن قائم کریں بلکہ عوامی اعتماد کی بحالی کا ذریعہ بھی بنیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts