اس دہشت گرد گروپ کی بنیاد 2010 میں اسلم بلوچ نے رکھی
گروپ 70 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو پر حملہ کرنے والے مجید کے نام سے منسوب ہے
گروپ کے بانی اسلم بلوچ کے بیٹے ریحان نے بھی 2018 میں خود کو خودکش دھماکا میں اڑایا
مجید بریگیڈ اب تک 16 خودکش حملوں سمیت تقریباً 80 حملے کرچکی ہے
کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر حملہ رفیق بزنجو نامی شخص نے کیا، رپورٹس
پشاور (غگ خصوصی رپورٹ) گزشتہ روز کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی کے ملٹری ونگ مجید بریگیڈ نے قبول کرلی ہے جو کہ 2010 کے بعد اب تک بلوچستان اور سندھ کے مختلف علاقوں میں تقریباً 100 حملے کرچکی ہے جن میں ایک درجن سے زائد خودکش حملے بھی شامل ہیں۔ بی ایل اے نے میڈیا کو ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے حملے کے اپنے خودکش بمبار کی تصویر بھی جاری کردی ہے جس کا نام محمد رفیق بزنجو بتایا گیا ہے۔عالمی میڈیا نے اس واقعے اور خودکش بمبار کی تصویر کو نمایاں طور پر شائع اور ٹیلی کاسٹ کیا ہے جبکہ بھارتی میڈیا نے بی ایل اے کو اپنی مضبوط پراکسی کا نام دے کر اس کو ٹی ٹی پی کی طرح پاکستان کے اور پاک چین اقتصادی راہداری کے لیے بڑا خطرہ قرار دیدیا ہے۔
ماہرین نے اس ضمن میں “غگ” کو مجید بریگیڈ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ مسلح گروپ بی ایل اے کا ملٹری ونگ ہے جس کے جنگجووں کی تعداد تقریباً 3000 بتائی جاتی ہے جنہوں نے افغانستان سے نہ صرف تربیت حاصل کی بلکہ اس کے متعدد کمانڈرز افغانستان، بھارت اور برطانیہ میں قیام پذیر ہو کر اس کو آپریٹ کرنے کے علاوہ اس کی فنڈنگ بھی کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ گروپ 70 کی دہائی میں کوئٹہ میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر ایک اجتماع کے دوران حملہ کرنے والے ایک باغی سیاسی کارکن مجید کے نام سے منسوب ہے جنہیں بعد میں مارا گیا تھا۔ سال 2010 کے دوران اسلم بلوچ نامی تشدد پسند کمانڈر نے موجودہ مجید بریگیڈ کی بنیاد رکھی اور اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس کے پہلے کمانڈر کا نام بھی مجید رہا جو کہ غیر منظم طریقے سے سال 2009 کے بعد فورسز پر حملے کرتا رہا اور اس کو مجید جونیئر کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ اس کمانڈر کو بلوچستان کے ایک گاؤں شاہوزی میں مارچ 2010 کے دوران ایک جھڑپ کے دوران مارا گیا جس کے فوری بعد اسلم بلوچ نے مجید بریگیڈ کے باقاعدہ قیام کا اعلان کردیا۔
بلوچستان کی حکومت نے اس عرصے کے دوران تین بار اسلم بلوچ کی ہلاکت کے دعوے کیے مگر وہ درست ثابت نہیں ہوئے اور اکثر ذرائع کا اب بھی کہنا ہے کہ وہ زندہ اور متحرک ہیں۔ اسلم بلوچ اور مجید بریگیڈ کو چند برس قبل اس وقت بلوچستان کی علیحدگی پسند حلقوں میں اس وقت مزید اہمیت حاصل ہوگئی جب اسلم بلوچ کے اپنے بیٹے ریحان اسلم بلوچ نے اگست 2018 میں خود چاغی میں ایک خودکش دھماکہ کیا جس میں وہ ہلاک ہوئے اور اس کے بعد یہ سلسلہ تیزی سے چل پڑا۔
گروپ کے بارے میں ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس نے پہلا خودکش حملہ اس کے قیام کے تقریباً ایک سال بعد دسمبر 2012 کے دوران سابق وفاقی وزیر نصیر مینگل کے بیٹے کی رہائش گاہ پر کیا تھا جس میں تقریباً ایک درجن افراد نشانہ بنے تھے تاہم عالمی سطح پر اس گروپ کا نوٹس اس وقت لیا گیا جب اس نے مئی 2019 کو گوادر میں موجود ایک بڑے ہوٹل پر ایک بڑا حملہ کردیا جس کے نتیجے میں گوادر پورٹ پر کام کرنے والے متعدد چینی ماہرین اور اہلکاروں کو ہلاک کردیا گیا۔
سال 2022 کے دوران اس گروپ نے کراچی میں بھی پاکستان اور چین کے متعدد پراجیکٹس کے ملازمین کو نشانہ بنانے کا آغاز کردیا اور اب تک اس گروپ نے کراچی میں 4 خودکش دھماکوں سمیت تقریباً 21 حملے کئے ہیں۔ یہ گروپ خواتین کو بھی بطور خودکش ہتھیار استعمال کرتا آرہا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو برسوں کے دوران اس نے خواتین کے ذریعے 6 حملے کرایے ہیں۔
ماہرین کے بعض سیکورٹی ذرائع کی رپورٹس میں اس گروپ کو بھارت اور امریکہ سمیت بعض دیگر ان ممالک کی پراکسی کا نام دیا جارہا ہے جن کا مقصد بلوچستان میں چین اور پاکستان کے اہم مشترکہ پراجیکٹس کو نشانہ بناکر ناکام بنانا ہے جبکہ بعض رپورٹس کے مطابق اس کے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ بھی رابطے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی معاونت کرتے آرہے ہیں۔