GHAG

شدت پسندی کا نظریاتی اور قبائلی پس منظر

ہندوستان، پاکستان، افغانستان اور ایران پرمشتمل ایک پیچیدہ خطے کی سیاسی ، مذہبی اور لسانی تاریخ بہت عجیب وغریب رہی ہے اور غالباً اسی کا نتیجہ ہے کہ یہاں مختلف ادوار میں نہ صرف علاقائی سطح پر جنگیں لڑی گئیں بلکہ متعدد سپر پاورز نے بھی کہیں پر براہ راست تو کہیں پراکسیز کے ذریعے جنگیں لڑ کر یہاں کی آبادی یعنی عوام کو نفسیاتی طور پرجنگجو اور پرتشدد بنادیا ۔ پشتونوں نے تمام ادوار میں ان جنگوں میں بنیادی کردار ادا کیا اور بحیثیت ایک لسانی گروپ اس کو  اب بھی بہت “بہادر” قوم کی حیثیت سے متعارف کروایا جاتا ہے حالانکہ بہادری اور حماقت میں بہت کم فرق اور فاصلہ ہوتا ہے۔ اس خطے کی جنگی تاریخ صدیوں پرانی ہے تاہم دور جدید میں پشتون اس وقت دنیا کے عسکری اور ریاستی حلقوں میں زیر بحث آئے جب دینی مدارس سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں طالبان نے 1995 کے آخری مہینوں کے دوران قندھار سے وار لارڈز کے خلاف مزاحمت شروع کی اور یہ ایک ڈیڑھ سال کے عرصے میں افغانستان پر بحیثیت حکمران قابض ہوگئے ۔ کابل کی جگہ  قندھار افغانستان کے فیصلہ سازی کا مرکز بن گیا اور دنیا کو اس قسم کا دو طرفہ تاثر دیا جانے لگا کہ افغانستان میں احمد شاہ ابدالی والا دور واپس آگیا ہے اور یہاں جدید دور میں ایک اسلامی ریاست قائم ہونے جارہی ہے حالانکہ اسلامی ریاست کا ایک نیا تجربہ عین اسی عرصے میں پڑوسی ملک ایران میں خمینی کے انقلاب کی شکل میں کیا جاچکاتھا ۔جس دور (1978) میں اسی افغانستان میں نور محمد ترکی کی قیادت میں سوشلسٹ انقلاب کے نام پر تبدیلی لائی گئی تھی۔

بہر حال طالبان کے قبضے نے جہاں پاکستان اور ایران کے مخصوص مذہبی ڈھانچوں میں دراڑ ڈال دی وہاں اس تبدیلی نے بھارت اور بعض دیگر ممالک کو بھی نئے چیلنجز سے دوچار کیا جہاں کشمیریوں کی مزاحمت جاری تھی ۔ اگر چہ ابتداء میں طالبان کو امریکہ اور پاکستان کی غیر اعلانیہ سرپرستی اور معاونت حاصل تھی تاہم بعد میں جب طالبان نے اپنی گرفت مضبوط کردی اور القاعدہ سمیت بعض دیگر غیر ملکی گروپ افغانستان میں جگہ پکڑنے لگے تو مسائل بڑھنا شروع ہوگئے ۔ ان مسائل میں افغانستان اور پاکستان کے لسانی معاملات اور اختلافات نے بھی سر اٹھانا شروع کردیا کیونکہ افغانستان ہر دور میں اس کے باوجود انتظامی طور پر ناں پشتون لسانی گروپوں کے زیر اثر رہا تھا کہ اس کی آبادی کے فریم ورک میں پشتون سب سے بڑا لسانی گروپ تھا ۔ افغانستان میں چونکہ تاجک ، ازبک اور ہزارہ قومیتیں تعلیم یافتہ ہونے کے باعث اس کے انتظامی اور حکومتی معاملات میں زیادہ فعال تھے اور پشتون اکثریت میں ہونے کے باوجود نہ صرف اقتدار کے مراکز سے دوری پر رہے تھے بلکہ ان کی زبان پشتو کو بھی فارسی یا دری کے مقابلے میں کمتر سمجھا جاتا تھا اس لیے معاشرے کے عام پشتونوں نے ان طالبان کا خیر مقدم کیا جنہوں نے آتے ہی پشتو زبان کو عام کرنے کا اعلان کردیا تھا اور یہ اقدام ماضی کے رویوں اور احساس محرومی کے تناظر میں ایک نیشنلسٹ سلوگن کے طور پر لیا گیا ۔ یہی وہ پس منظر تھا جس کے باعث بائیں بازو کی تین اہم سیاسی قوتوں خلق ، پرچم اور افغان ملت کے بہت سے پشتون رہنماؤں ، کارکنوں اور دانشوروں نے سیاسی اختلافات کے باوجود کسی نہ کسی شکل میں طالبان کی حمایت شروع کردی کیونکہ طالبان لسانی طور پر 95 فی صد پشتون تھے اور دوسروں کے برعکس ان کو یہ فایدہ بھی حاصل تھا کہ یہ حنفی سنی مسلمان تھے۔

ان کے اس پس منظر نے پاکستان کے پشتون مذہبی کاریڈورز اور بعض مذہبی جماعتوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا اور بہت سے سیاسی اور مذہبی حلقوں کو یہ باور ہونے لگا کہ جدید دور میں بھی مسلم اکثریت والے کسی علاقے میں ایک سخت گیر اسلامی حکومت قائم کی جاسکتی ہے ۔ یوں جہاں ایک طرف افغانستان کے اندر دوسرے لسانی گروپوں کی مشکلات میں اضافے کا راستہ ہموار ہوگیا اور ایران کے حامیوں کے مسائل بڑھنے لگے وہاں پاکستان کے سنی حنفی مسالک سے جڑے لوگ مزید فعال ہونے لگے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نئی صورتحال نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے مذہبی پشتون حلقوں اور پارٹیوں میں نئی روح پھونک دی اور ان کی اہمیت میں عرصہ دراز کے بعد عین اسی طرح اضافہ ہونے لگا جیسے ایک وقت میں پاکستان کے پشتون قوم کو   اہمیت حاصل تھی ۔ یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا اور اس کی ایک بڑی مثال یہ دی جاسکتی ہے کہ نائن الیون کے بعد جب پاکستان میں جنرل مشرف کے دور حکومت میں عام انتخابات ہوئے تو خیبرپختونخوا میں ایم ایم اے کی شکل میں ایک نئی پارلیمانی قوت اکثریت سے کامیاب ہوکر برسرِ اقتدار آگئی اور عین یہی صورتحال بلوچستان میں بھی دیکھنے کو ملی ۔  طالبان جس قدر اقتدار پر گرفت مضبوط کرتے رہے افغانستان کے لبرل حلقوں کی پریشانی بڑھتی گئی اور ساتھ ایران ، بھارت اور بعض سنٹرل ایشین ریاستوں کی تشویش بھی بڑھتی گئی ۔ ایران کی تشویش کی وجہ افغانستان میں اس کی مسلسل مداخلت اور اپنے حامیوں کو درپیش چیلنجز سے جڑی تھی جبکہ بھارت کو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ افغان طالبان نظریاتی طور پر کشمیری مجاہدین کے نہ صرف حامی تھے بلکہ وہ رسمی طور پر کشمیری مزاحمت کاروں یا مجاہدین کی حمایت میں بیانات بھی جاری کررہے تھے اور کشمیری گروپوں کے بعض اہم رہنماؤں کو افغان طالبان میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔ اس ضمن میں جیش کے مولانا مسعود اظہر اور ایک اور اہم گروپ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان خلیل کی مثال دی جاسکتی ہے جنہوں نے نہ صرف یہ کہ افغان طالبان کی کھل کر حمایت کی تھی بلکہ ان کو فیصلہ سازی میں بھی شامل کیا جاتا تھا ۔ ان دونوں رہنماوں کو امریکہ نے بھی مطلوب افراد کی لسٹ میں شامل کردیا تھا ۔

اس تمام صورتحال کے تناظر ایک مسلسل بیانیے کے ذریعے دو تین باتوں یا دعوؤں کی زبردست پبلسٹی کی گئی۔

پہلا یہ کہ افغانستان ہر دور میں سپر پاورز سمیت سب کے لیے ناقابل تسخیر رہا ہے اور رہے گا

دوسرا یہ کہ پشتون بہت بہادر ہیں اور ان کو جب بھی موقع ملے گا یہ افغانستان اور پاکستان کے پشتون علاقوں پر مشتمل ایک الگ ریاست قائم کریں گے

تیسرا یہ کہ پاکستان نے انگریز کی قایم کردہ ڈیورنڈ لائن کے ذریعے پشتونوں کو غلام بنا رکھا ہے اور یہ کہ ہم ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتے

یہ تینوں دلائل کتنے درست اور مستقبل کے منظر نامے میں قابل استعمال ہیں اس بحث سے قطع نظر تلخ حقائق یہی رہے کہ پشتونوں کی اکثریت کے لیے یہ دلائل اور نعرے دلچسپی کے حامل رہے اور ان دلائل کو بعض تاریخی واقعات اور خواہشات کے تناظر میں پذیرائی ملتی رہی ۔

پشتون طالبان ہیں یا طالبان پشتون ہیں؟ اس سوال اور بحث نے بھی معاملات کو کافی پیچیدہ بنائے رکھا تاہم اس بحث کو امریکہ ، ایران اور بھارت نے نہ صرف بہت اچھالا بلکہ پالیسی میکنگ کے علاوہ ان ممالک نے اپنے طاقتور میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں اس تاثر کو بہت عام کیا کہ پشتون بحیثیت قوم انتہا پسند اور طالبان ہیں اور یہ کہ طالبان پشتون ہیں ۔ اس تاثر یا پروپیگنڈا نے جہاں پشتونوں کو سافٹ امیج کو نقصان پہنچایا وہاں طالبان وغیرہ نے اس کو اپنے حق میں خوب استعمال کیا اور مختلف مراحل پر ماہرین کے علاوہ عالمی تھنک ٹینکس میں یہ بات عام ہونے لگی کہ طالبان اپنی مذہبی وابستگی اور نظریات کے تناظر میں پشتون قوم پرستی کے فلسفے کو بھی فالو کررہے ہیں ۔

افغانستان میں اشرافیہ کی سطح پر پشتون لسانی گروپ کے ساتھ روا رکھے گئے مبینہ منفی سلوک کے تاریخی حالات کے پس منظر میں عام پشتون آبادی نے نہ صرف لسانی ردعمل کے طور پر  ناین الیون کے بعد طالبان کو پناہ گاہیں فراہم کیں بلکہ ان کی حمایت میں اضافہ بھی ہوا سال  2005-06 کے بعد صورتحال اتنی پیچیدہ ہوگئی کہ عراق اور شام میں بہترین نتائج دینے والے نیٹو کے ایک مشہور زمانہ امریکی جرنیل کو افغانستان میں تعینات کیا گیا اور اس نے ہلمند اور بعض دیگر علاقوں میں آپریشن کرکے پسپائی اختیار کی تو انہوں نے صدر باراک اوباما کے ایک نوٹس کے جواب میں لکھا کہ پوری سوسائٹی ہمارے خلاف اور طالبان کی حامی ہے اور ہم ایک گروپ یا تنظیم سے تو کرسکتے پورے معاشرے سے نہیں کرسکتے ۔ انہوں نے اس وقت کی سیکریٹری آف اسٹیٹ کو لکھا کہ طالبان کے مقابلے میں ہمارے افغان اتحادی بہت کمزور اور خوفزدہ ہیں اور وہ ہماری مدد نہیں کرسکتے اس لیے جتنا جلد ممکن ہو افغانستان سے نکلا جائے۔

افغانستان کے طالبان کے طرز پر پاکستان کے طالبان گروپوں نے بھی اپنی پالیسیاں ترتیب دیں اور اس کی بنیاد اتنی مضبوط رکھی گئی کہ پاکستان کے طالبان اور ان کے رہنماؤں کے لیے افغان طالبان کے سربراہ جن کو وہ امیر المؤمنین کہا کرتے ہیں کے ہاتھ اور نام پر بیعت کو لازمی قرار دیا گیا ۔ اس عرصے کے دوران جب ٹی ٹی پی کی سربراہی مفتی نور ولی کے پاس آگئی تو انہوں نے کوشش کی کہ ٹی ٹی پی کو نہ صرف یہ کہ ایک سیاسی قوت کے طور پر متعارف کرایا جائے بلکہ وہ مختلف مراحل پر ایک پشتون قوم پرست کے طور پر بھی سامنے آتے رہے ۔ اس پالیسی کا نتیجہ اس شکل میں نکلتا رہا کہ ٹی ٹی پی نے متعدد بار قبائلی علاقوں اور ملاکنڈ ڈویژن وغیرہ میں پاکستانی فورسز کی ہونیوالی کارروائیوں کو پشتونوں کی نسل کشی کا نام دیا اور اس نے نظریاتی اختلاف کے باوجود پی ٹی ایم اور بعض دیگر کے خلاف ہونے والے ریاستی اقدامات کی کھل کر مخالفت کی ۔ ایران اور بھارت کے خلاف افغان طالبان کی طرح پاکستانی طالبان کا طرز عمل بھی بہت سخت رہا اور اس تمام صورتحال کے اندر پشتون فیکٹر دونوں اطراف میں شدت کے ساتھ موجود رہا ۔ سال 2023 کے دوران جب پاکستان اور ایران سے افغان مہاجرین کی واپسی کے اقدامات کیے گئے تو افغان عبوری حکومت کی طرح ٹی ٹی پی نے بھی اس کی شدید مخالفت کی ۔ اسی طرح جب مارچ 2024 کے دوران پاکستان نے افغانستان کے دو صوبوں خوست اور پکتیکا میں فضائی کارروائی کی تو اس کے خلاف دونوں اطراف کے طالبان نے یہ کہہ کر بدلہ لینے کے اعلانات کیے کہ افغانستان نے تین سپر پاورز کو شکست دی ہیں پاکستان کیا چیز ہے ۔ اس کارروائی پر اسی نوعیت کا ردعمل دونوں ممالک کے پشتون قوم پرستوں کا بھی سامنے آیا ۔ اس کے علاوہ افغان عبوری حکومت کے وزراء اقتدار حاصل کرنے کے بعد متعدد بار یہ کہتے پائے گئے کہ وہ ڈیورنڈ لائن کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان مستقل سرحد نہیں مانتے ۔ یہ بیانیہ پہلے دن سے پاکستان کے قوم پرستوں کا بھی رہا ہے حالانکہ نظریاتی طور پر طالبان اور قوم پرست ایک دوسرے کے مدمقابل رہے ہیں ۔ سال 2023 ۔24 کے دوران ایک عجیب وغریب صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب افغانستان کے طالبان کے علاوہ عام لوگوں کی ایک بڑی اکثریت نے پاکستان تحریک انصاف کی ریاست مخالف سرگرمیوں کا دفاع کرتے ہوئے عمران خان کی نہ صرف تعریفیں شروع کیں بلکہ 2024 کے الیکشن میں ان کی پارٹی کی کامیابی کے لیے سوشل میڈیا پر مہم بھی چلائی ۔ یہی طرزِ عمل ہمیں بھارت کی جانب سے بھی دیکھنے کو ملا جس کے سیاسی قائدین اور ماہرین نے عمران خان کو بطورِ ہیرو پیش کرکے ٹی ٹی پی ، امارات اسلامیہ افغانستان اور پی ٹی آئی کو پاکستان توڑنے کی مہم کے بنیادی کردار قرار دیتے ہوئے یہ بیانیہ تشکیل دیا کہ پاکستان کے پشتون بغاوت پر اتر آئے ہیں ۔ اگر چہ افغانستان کی ٹوٹل آبادی سے پاکستان میں رہائش پذیر پشتونوں کی تعداد زیادہ ہے اور پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں پشتون پنجابی لسانی گروپ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے اس کے باوجود ڈیورنڈ لائن کے ایشو کی آڑ میں پاکستان کو پشتونوں اور افغانستان کی طرف سے موجود بیانیہ کبھی کمزور نہیں ہوا اور کچھ ایسی ہی صورتحال کا سرحدی تنازعات پر ایران کو بھی سامنا ہے۔

ماہرین کی اکثریت کی رائے ہے کہ مستقبل میں اگر موجودہ افغان عبوری حکومت مضبوط ہو جاتی ہے تو اس سے پاکستان،ایران اور بھارت کی مشکلات میں مزید اضافے کا راستہ ہموار ہوگا اور اس کے نتیجے میں علاقائی کشیدگی مزید بڑھے گی ۔ افغانستان کو اس منظر نامے میں بہت سی کمزوریوں کے باوجود یہ فائدہ حاصل ہے کہ افغانستان کے تمام سیاسی فریقین سمیت اس کے عوام اپنے ملک کی سلامتی کے معاملے پر جذباتی حد تک ایک پیج پر ہیں جبکہ پاکستان کی اجتماعی صورتحال اس کے بلکل الٹ ہے ۔ دوسرا فائدہ افغانستان کو یہ حاصل ہے کہ پاکستان کے پشتون اور بلوچ قوم پرستوں کے علاوہ اسے پاکستان کے بعض اہم مذہبی جماعتوں کی ہمدردیاں بھی دستیاب ہیں جبکہ پاکستان کو تمام تر کوششوں کے باوجود افغانستان کے اندر کوئی سیاسی یا عوامی حمایت میسر نہیں ہے۔

مستقبل میں کیا کچھ ممکن ہے اور خطے کے سیکیورٹی اور سیاسی حالات میں کس نوعیت کی تبدیلیاں آسکتی ہیں اس بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا تاہم اس بارے میں کوئی ابہام نہیں کہ خطے کے مستقبل کو مزید پیچیدگیوں اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ کھیل صرف پاکستان اور افغانستان تک محدود نہیں رہے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts