مذاکراتی عمل شاید جند اہم لوگوں کا انفرادی فیصلہ تھا جو کہ گلے پڑ گیا
خیبرپختونخوا اور افغانستان کے سیاسی، سماجی ڈھانچے کو سمجھنے کی ضرورت ہے
افغان طالبان کے ساتھ نئے سرے سے انگیجمنٹ ہونی چاہیے وہ بات ضرور سنیں گے، خصوصی انٹرویو
پشاور (غگ رپورٹ) دہشت گردی کے معاملات، علاقائی امور اور گورننس پر عبور رکھنے والے متعدد قابل ذکر کتابوں کے مصنف پروفیسر حسن عباس نے کہا ہے کہ اگر سول اداروں نے خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد ادارہ جاتی اور سماجی چیلنجز کا ادراک کرتے ہوئے یہاں درکار انویسٹمنٹ کی ہوتی تو آج ان علاقوں میں دہشت گردی کی یہ خطرناک صورتحال نہیں بنی ہوتی اور انتظامی، ادارہ جاتی کمزوریوں سے انتہا پسند قوتیں فایدہ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتیں ۔
ایک تفصیلی انٹرویو میں “دی ریٹرن آف دی طالبان” سمیت متعدد اہم کتابوں کے مصنف حسن عباس نے کہا کہ خیبرپختونخوا، بلوچستان اور افغانستان کی سوشیو پولیٹیکل ڈائنامکس بلکل مختلف اور پیچیدہ ہیں ان کو سمجھے بغیر دہشت گردی سمیت بعض دیگر مسائل اور چیلنجز کا حل نہیں نکالا جاسکتا۔ حالیہ بدامنی اور کشیدگی کے متعدد اسباب ہیں تاہم ایک تو یہ ہے کہ پاکستان نے بوجوہ افغان طالبان کے ساتھ ٹھیک ڈیلنگ نہیں کی اور دوسری کوتاہی یہ ہوئی کہ فاٹا انضمام کے بعد ان علاقوں میں کوئی قابل ذکر سرمایہ کاری نہیں کی گئی اور نا ہی اداروں کو منظم اور فعال بنانے کی کوشش دیکھنے کو ملی اگر ان معاملات پر توجہ دی گئی ہوتی تو آج حالات کافی مختلف اور بہتر ہوتے۔
کابل میں سابق دور حکومت کے دوران ایک مذاکراتی عمل سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مس منیجمنٹ کے باعث یہ کوششیں نہ صرف ناکام ہوئیں بلکہ صورتحال مزید پیچیدہ ہوگئی۔ ان کے بقول لگ یہ رہا ہے کہ یہ کسی اجتماعی فیصلے یا پالیسی کی بجائے عمران خان، جنرل فیض حمید اور چند دیگر اہم افراد کا انفرادی عمل تھا جو کہ بعد میں سب کے گلے پڑ گیا آج ایک بار پھر اس پریکٹس پر شدید تنقید کا سلسلہ شروع ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے ہاں بعض شخصیات بہت طاقتور ہو جاتی ہیں اس لیے بعض اوقات وہ ایسے اقدامات اٹھاتے ہیں یہاں بھی ایسی صورتحال دیکھنے کو ملی تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مذاکرات ، رابطہ کاری یا مکالمے کا دروازہ ہی بند کردیا جائے۔ افغان طالبان ماضی کے مقابلے میں کافی مختلف ہیں پاکستان کو نہ صرف ان کے ساتھ تمام تر کشیدگی کے باوجود ری اینگنیجنٹ کی ضرورت ہے بلکہ اگر وہ کالعدم ٹی ٹی پی کی سینئر لیڈر شپ کو ایک پلاننگ کے تحت واقعتاً شمالی افغانستان میں منتقل کرنا چاہتے ہیں تو پاکستان کو ان کی مالی امداد بھی کرنی چاہیے کیونکہ محض عسکری کارروائیوں سے ایسے مسائل کو حل نہیں کیا جاسکتا۔
حسن عباس نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ مغرب میں ہیومن رائٹس وغیرہ کے پیمانے منافقت پر مبنی ہیں وہاں دوسروں کو دباؤ میں ڈالنے کے لیے مخصوص قسم کے تکنیکی حربے استعمال کیے جاتے ہیں ہمیں ان کی پرواہ کئے بغیر اپنے مقامی ڈائنامکس کے تناظر میں اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسیاں اختیار کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے مذہبی انتہا پسندی کے مختلف معاملات وسیع پیمانے پر پھیل گئے ہیں اور ان کے مزید خطرات سے بچنے کے لیے سیاسی، ادارہ جاتی اور سماجی سطح پر میرٹ کی بنیاد پر ماہر فیصلہ سازوں کے ذریعے اقدامات کرنے پڑیں گے۔ ان کے بقول پاکستان اپنی عمر اور تاریخ کے تناظر میں ایک “ینگ” ریاست اور ملک ہے متعدد غلطیوں اور چیلنجز کے باوجود اس کے دفاعی، سیاسی اور سماجی، معاشی پیشرفت کا سفر جاری ہے اور ایک نیوکلیئر پاور کے علاوہ اس کی جغرافیائی اہمیت کو بھی خطے میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اس لیے زیادہ مایوسی ہونے کی ضرورت نہیں ہے تاہم یہ لازم ہے کہ گورننس کے ایشوز پر توجہ دیکر بعض بنیادی خامیوں کو دور کرنے کے لیے درکار اقدامات کیے جائیں کیونکہ ہمارے ملک اور خطے کو متعدد نئے چیلنجز کا سامنا ہے اور روایتی طریقوں یا طرزِ حکمرانی سے ان چیلنجز کا نہ تو ادراک کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان سے نمٹنا ممکن ہے۔
( 1 جنوری 2025 )