تحریر : فہمیدہ یوسف
پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کا آکسفورڈ یونیورسٹی کی چانسلرشپ کے انتخاب سے باہر ہونا صرف ایک ذاتی ناکامی نہیں بلکہ تحریک انصاف کی مجموعی سیاسی حکمت عملی پر سوالات اٹھاتا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے جاری کردہ حتمی فہرست میں عمران خان کا نام شامل نہ ہونا کسی حیرانی کی بات نہیں۔ یونیورسٹی نے اس معاملے پر قانونی ماہرین سے مشاورت کی جس میں واضح کیا گیا کہ چانسلرشپ کے امیدوار کو غیرجانبدار، شفاف کردار کا حامل اور غیر سیاسی عزائم رکھنے والا ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے، عمران خان ان تمام معیارات پر پورا نہیں اترتے تھے۔
تحریک انصاف کی جانب سے عمران خان کو زلفی بخاری کے ذریعے نامزد کیا گیا تھا اور پارٹی نے اس موقع کو عالمی سطح پر اپنی سیاسی ساکھ بہتر بنانے کے طور پر پیش کیا۔ زلفی بخاری کی قیادت میں مختلف لابنگ فرمز گزشتہ دو ماہ سے عمران خان کی بطور چانسلر تعیناتی کے حق میں سرگرم تھیں۔ مگر حقائق یہ ہیں کہ یہ قدم بغیر کسی سنجیدہ غور و فکر کے اٹھایا گیا۔ عمران خان کی شخصیت اور ان کی سیاسی وراثت، جو مغرب میں خاص طور پر متنازع رہی ہے، آکسفورڈ یونیورسٹی جیسے معتبر ادارے کے معیار کے مطابق نہیں تھی۔
مغرب عمران خان کو 1980 کی دہائی سے ایک پلے بوائے کے طور پر جانتا ہے، اور ان کے سیاسی دور کو ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ ان کا طالبان کی فتح پر جشن منانا اور 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات ان کی عالمی ساکھ کو مزید نقصان پہنچا چکے ہیں۔ ایسے میں آکسفورڈ جیسے قدیم اور معتبر ادارے کے فارغ التحصیل طلبہ اور انتخابی کالج پر دباؤ تھا کہ وہ ایک ایسی شخصیت کو چانسلر نہ بنائیں جو عالمی سطح پر متنازع ہو۔
تحریک انصاف نے عمران خان کو برطانیہ میں ویسا ہی مقبول سمجھا جیسا ان کے پاکستانی مداح انہیں سمجھتے ہیں، لیکن یہ اندازہ انتہائی غلط ثابت ہوا۔ مغرب عمران خان کو ایک روایتی سیاستدان نہیں بلکہ ایک متضاد شخصیت کے طور پر دیکھتا ہے، جس کی مذہبی تبدیلیاں اور سیاسی موقف میں تبدیلیاں اکثر محض سیاسی مفاد پرستی کے طور پر لی جاتی ہیں۔
برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے بھی عمران خان کے نامزدگی کے وقت لکھا تھا کہ ان کا انتخاب برطانوی اقدار کو کمزور کرے گا نہ کہ مضبوط۔ اگر تحریک انصاف کے تھنک ٹینک نے اس تمام صورتحال کا بہتر ادراک کیا ہوتا تو شاید یہ ناکامی ان کے حصے میں نہ آتی۔
اب زلفی بخاری نے کہا ہے کہ وہ یونیورسٹی انتظامیہ سے عمران خان کے کاغذات مسترد ہونے کی وجوہات دریافت کریں گے۔ تاہم اس سے ممکنہ طور پر پاکستان کو مزید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا جب دنیا کے سامنے یہ حقائق آئیں گے کہ عمران خان کو کرپشن، عدالتی سزاؤں اور اپنی بیٹی کو ظاہر نہ کرنے کی بنا پر مسترد کیا گیا۔ ایسے لمحات نہ صرف عمران خان کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچائیں گے بلکہ ریاست پاکستان کے لیے بھی عالمی سطح پر سبکی کا باعث بن سکتے ہیں۔
اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عالمی سطح پر عزت اور وقار حاصل کرنے کے لیے صرف عوامی مقبولیت کافی نہیں ہوتی۔ اس کے لیے ایک شفاف کردار، مضبوط اصول اور غیر سیاسی عزائم ہونا ضروری ہیں۔ عمران خان کا آکسفورڈ کی چانسلرشپ کی دوڑ سے باہر ہونا دراصل اس بات کا عکاس ہے کہ صرف جذباتی فیصلے اور سطحی منصوبہ بندی سیاسی کامیابی کی ضمانت نہیں دے سکتے۔