GHAG

دہشت گردی میں اندرونی ہاتھ، چند حقائق

شمس مومند

ملک کے طول وعرض میں بیس سال سے جاری دہشت گردی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ ایک لہر ختم ہوتی ہے تو اس سے زوردار کوئی اور لہر کسی اور شکل میں شروع ہوجاتی ہے۔ سیکیورٹی اداروں کے جوان و افسران، پولیس لیوی سرکاری وغیر سرکاری ملازمین سمیت عام عوام کا بچہ بچہ اس تباہ کن صورتحال سے متاثر ہورہا ہے اور شہدا کی قربانیوں کی نئی داستانیں رقم ہورہی ہے۔ عوام نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق تند وتیز سوالات شروع کر دئے ہیں کہ آخر کار ہزاروں جانوں کی قربانیوں، اربو ڈالرز کے نقصانات 08 امن معاہدوں اور 12 بڑے فوجی آپریشنز کے باوجود دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑا کیوں نہیں جاسکتا ہے۔عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ قبائلی اضلاع اور پختونخوا میں غربت بے روزگاری عوام کی محرومیاں ، پختونخوا کے معدنی وسائل اور پاکستان دشمن بیرونی ہاتھ جاری دہشت گردی کی وجوہات ہیں۔ مگر گزشتہ روزاعلی عسکری ذرائع نے ایک طویل ملاقات میں دہشت گردی میں اندرونی ہاتھوں کے ملوث ہونے کے چشم کشا انکشافات کئے۔ اور اعداد وشمار کیساتھ دہشت گردوں سمگلنگ اور منشیات مافیا کے درمیان تعلق کو اجاگر کیا گیا۔

ذرائع کا دعوی ہے کہ گزشتہ دس ماہ سے جاری بھرپور کوششوں کے باوجود اب بھی ایران سے یومیہ چھ میلین لٹرتیل سمگل ہوکر پاکستان پہنچتا ہے اور اس سے سمگلر مافیا کو روزانہ ڈیڑھ ارب روپے کا منافع ملتا ہے۔ اس سے پہلے یہ مقدار دس میلین یومیہ سے زیادہ تھی۔ اسی طرح ملک بھر میں پولیس اور نارکوٹکس فورس سمیت سیکورٹی اداروں نے گزشتہ صرف نو مہینے میں ایک ہزار 41 ٹن منشیات پکڑی ہے۔ یعنی اوسطا روزانہ ساڑھے تین ٹن منشیات پکڑی گئی ہے اسکے علاوہ روزانہ کتنی منشیات کامیابی کیساتھ سمگل ہورہی ہے اس کا تخمینہ ہی مشکل ہے۔ اسی طرح صرف ملاکنڈ ڈویژن میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی تعداد 8 سے 10 لاکھ کے درمیان بتائی جاتی ہے بلوچستان اور کچھ سرحدی قبائلی اضلاع میں موجود نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو ملایا جائے تو یہ تعداد 20 لاکھ سے بھی تجاوز کر جائے گی۔ اس کے علاوہ غیر قانونی ٹائروں، تمباکو، ڈالرز، جانوروں، کپڑے اور روزمرہ استعمال کی اشیاٗ سمیت سینکڑوں اشیاٗ کی غیر قانونی نقل و حمل جہاں ایک طرف حکومت پاکستان کا بٹہ بٹھاتی ہے۔ اسکی کمزور معیشت کو اپنے پاوں پر کھڑا ہونے نہیں دیتی وہاں اس غیر قانونی دھندوں کا منافع دہشت گردی سمیت مزید غیر قانونی کاموں میں استعمال ہورہا ہے۔ یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ دنیا کے کئی ممالک کی سیاست میں منشیات اور سمگلنگ سے حاصل شدہ کالا دھن استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان کو بھی ان ممالک کی فہرست سے مستثنی قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ پاکستانی سیاست میں نو دولتیوں کی آمد اور کردار کسی سے پوشیدہ نہیں۔

ذرائع بتاتے ہیں کہ ان غیر قانونی دھندوں سے یومیہ کے حساب سے اربوں روپے کی آمدن کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ایک حصہ اس کرپٹ اور دو نمبری نظام کو برقرار رکھنے کے لئے سپاہی اور چوکیدار سے لیکر اعلی حکام اور افسران تک خریدنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا کچھ حصہ بھتے اور سرپرستی کی شکل میں دہشت گردوں کوفراہم کیا جاتا ہے۔ تاکہ ملک کے اندر جاری فسادات کیوجہ سے فوج اسکے وسائل اور توجہ تقسیم رہے اور وہ صرف سرحدوں پر غیر قانونی آمد ورفت پر بھرپور توجہ مبذول کرکے ان کے کاروباروں کو بند نہ کرسکے۔ دوسرا حصہ یہ طاقتور مافیا اپنی عیش وعشرت ، تعلقات بڑھانے اور اندرون وبیرون ملک سیر وسیاحت پر خرچ کرتا ہے جبکہ اس بلیک منی کا سب سے بڑا حصہ پاکستان کے مارکیٹ سے ڈالر خریدنے اور بیرون ملک بھیجنے کے لئے مختص ہوتا ہے۔ جسکی وجہ سے ملک میں ڈالر کی اونچی اڑان اور مہنگائی آئے روز دیکھنے کو ملتی ہے۔ ملک کے اندر روزانہ ایک اشاریہ چھ ارب روپے کی بجلی چوری ایف بی آر کسٹم اور پولیس سمیت درجنوں محکموں میں بڑے پیمانے کے کرپشن اسی نظام کی کمزوری کی علامات اور تسلسل کی وجہ ہے۔

دوسری جانب وفاق کی جانب سے دہشت گردی کی روک تھام کی کوششیں اپنی جگہ مگر خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی عدم توجہی کسی بھی صورت قابل تحسین نہیں۔ گزشتہ روزوزیر اعظم شہباز شریف کی قومی اسمبلی کو دئے گئے اعداد وشمار کے مطابق وفاق نے گزشتہ دس سال میں پختونخوا حکومت کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت صرف دہشت گردی کی روک تھام کے لئے 490 ارب روپے فراہم کئے ہیں تاکہ یہاں کے پولیس، لوکل انٹیلی جنس اور عدالتی نظام کو بہتر بناکر دہشت گردی کی روک تھام کی جاسکے۔ مگر صورتحال دیکھئے کہ صوبہ بھر کے لئے قائم کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ میں اس وقت صرف 600 اہلکار و افسران کام کرتے ہیں۔ صوبے میں بے تحاشا دہشت گردی کیسز کے باوجود یہاں دہشت گردی کے کیسز سننے کے لئے صرف 13 عدالتیں قائم کی گئی ہے جبکہ سندھ اور پنجاب میں کم دہشت گردی کیسز کے باوجود یہ تعداد بالترتیب 32 اور 48 ہیں۔

دہشت گردی اور سمگلر مافیازکے اس گھناونے گھٹ جوڑ کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جاری دہشت گردی کا خاتمہ صرف فوجی کارروائی کے ذریعے ممکن نہیں اس لئے ضرورت اس بات کی ہے۔ کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اس ضمن میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ تاکہ اس غیر منحوس شراکت داری کو ختم کیا جاسکے۔ گزشتہ ہفتے ایپیکس کمیٹی کے اجلاس میں اعلان کردہ عزم استحکام کسی فوجی آپریشن نہیں بلکہ انہی مربوط کوششوں اور جدوجہد کا نام ہے۔ اس لئے قوم کے بچے بچے کو اس جدوجہد میں اپنا اپنا کردار ادا کرنے کے لئے آگے آنا چاہیے تاکہ ایک زندہ قوم کی مانند اس عفریت سے نجات حاصل کیا جا سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts