GHAG

کی بورڈ واریئرز کی کارستانیاں اور پشتونوں کو لڑانے کی کوشش

عقیل یوسفزئی

امریکہ میں بیٹھے وجاہت سعید خان نامی ایک ڈرامہ نما یوٹیوبر نے بعض دیگر لاتعداد غلط اطلاعات کی ” فراہمی ” کا ریکارڈ برقرار رکھتے ہوئے گزشتہ روز اپنی نئی ” ارشادات ” میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستانی ریاست تحریک انصاف کے بانی عمران خان کو قتل کرنے یا کروانے کی سازش کررہی ہے اور یہ کہ یہ ایک ” نیوکلیئر آپشن ” ثابت ہوگا ۔ موصوف نے اس انتہائی غیر حقیقت پسندانہ موقف کو معلومات کی بجائے ذاتی خواہشات کی شکل میں پیش کرتے ہوئے ایک اور پیشنگوئی یہ کی ہے کہ اگر اس آپشن پر عمل درآمد کیا گیا تو جنگ زدہ خیبرپختونخوا کے ” غیور پشتون ” نہ صرف یہ کہ فوج کے اور ریاست کے خلاف بغاوت پر اتر آئیں گے بلکہ اس کے نتیجے میں اس طرح کی صورتحال بن جائے گی جو کہ 1971 میں مشرقی پاکستان میں بن گئی تھی ۔ ساتھ میں یہ انکشاف بھی کردیا ہے کہ ایسا ہونے کی صورت میں” غیور پشتون ” ذوالفقار علی بھٹو کے سندھیوں کے برعکس اپنے لیڈر یعنی عمران خان کا انتقام لیں گے ۔ وغیرہ وغیرہ

موصوف مین سٹریم میڈیا میں کام کرنے کے عرصے میں کرنٹ افیئرز کے نام پر انتہائی احمقانہ قسم کے پروگرامز اور اس نوعیت کی ڈرامہ بازیوں کی شہرت رکھتے تھے تاہم اب وہ چونکہ ون مین میڈیا پلیٹ فارم ہے اس لیے کچھ بھی کہہ سکتے ہیں اس لیے کہ وہ اس سکواڈ کا حصہ ہے جو کہ ڈالرز کمانے کی میڈیائی بزنس کے فروغ کے لیے ایک مخصوص پارٹی کی فالونگ شپ کو پکڑنے کے لیے ان کو کبھی عمران خان کی رہائی کی خوشخبری دیتے نظر آتے ہیں تو کبھی ان کو قتل ( خدانخواستہ) کی کسی نیوکلیئر آپشن پر مبنی اس نوعیت کی خوفناک منظر کشی کا سہارا لیتے ہیں ۔ اس ضمن میں دو تین نکات بہت اہم ہیں جس پر بحث ہونی چاہیے ۔ پہلا نکتہ تو یہ ہے کہ عمران خان کی مقبولیت اپنی جگہ اور صوبے میں ان کی حکومت کی موجودگی کی اپنی اہمیت مگر موصوف کس منطق کی بنیاد پر عمران خان کو پشتونوں کا لیڈر کہہ سکتے ہیں اور اس دعوے کا پیمانہ کیا ہے ؟

خیبرپختونخوا میں بوجوہ بے شک پی ٹی آئی 2013 کے بعد تیسری بار اقتدار میں آئی ہے تاہم اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اس صوبے میں جے یو آئی ، اے این پی اور دو دیگر بڑی پارٹیوں کا نہ صرف یہ کہ بہت سٹرانگ ہولڈ ہے بلکہ یہ پارٹیاں تحریک انصاف سے زیادہ سٹریٹ پاور رکھتی ہیں ۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جس پارٹی کے بانی کو وہ پشتونوں کا لیڈر کہہ کر انہیں بغاوت پر آمادہ کرنے کی کوشش اور پیشنگوئی کررہے ہیں اس پارٹی کو تنظیمی طور پر سب سے زیادہ اختلافات کا خیبرپختونخوا ہی میں سامنا ہے ۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے عوام کی اکثریت محاذ آرائیوں ، کشیدگی ، شرپسندی اور دہشت گردی جیسے عوامل اور رویوں سے نہ صرف یہ کہ بیزار ہو کر تنگ آگئے ہیں بلکہ انہوں نے بہت برے حالات اور سانحات کے دوران بھی کبھی تشدد کا راستہ نہیں اپنایا ۔ اگر ایسا کرنا اس صوبے کی روایت ہوتی تو اے پی ایس سانحہ کے بعد وہ مزاحمت پر اتر آتے ۔

سب سے بڑا سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ خدانخواستہ پاکستانی ریاست عمران خان کو قتل کیوں کرائے گی؟۔ عمران خان صاحب کے پاس آپشنز ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتے جارہے ہیں اور ان کی اپنی پارٹی بدترین انتشار سے دوچار ہے ۔ بلاشبہ ان کے ساتھ ایک مقبول لیڈر کی طرح قانون کے حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے سلوک اور انصاف ہونا چاہیے تاہم یہ کہنا کہ عمران خان ریاست کے لیے کوئی بڑا چیلنج یا خطرہ ہیں، زمینی حقائق کے برعکس بات ہے ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ان کے متعدد لیڈرز کے علاوہ اس قسم کے یوٹیوبرز سے واقعتاً عمران خان کے حال اور مستقبل کو خطرہ لاحق ہے کیونکہ یہ دوستی اور ہمدردی کے نام پر عمران خان کے دوستوں کی شکل میں ان کے دشمنوں کا کردار ادا کرتے آرہے ہیں اور ذاتی مفادات کے لیے اس فارمولے پر چلتے نظر آتے ہیں کہ ” چڑھ جا سولی پر” ۔ لازمی ہوگیا ہے کہ ان کی بورڈ واریئرز کے ساتھ سختی کے ساتھ نمٹا جائے اور ان کی بے تکی انکشافات کی شر سے عوام کو محفوظ بنایا جائے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts