GHAG

وزیردفاع خواجہ آصف کا بڑا دعویٰ

پی ٹی آئی تقریباً 40 ہزار حملہ آوروں کو لانا چاہتی تھی، خواجہ آصف

پی ڈی ایم دور میں افغانستان کی  حکومت نے 10 ارب روپے مانگے مگر کوئی گارنٹی نہیں دی، وزیردفاع

عمران دور میں فیض حمید نے ڈائریکٹ کالعدم گروپ سے مذاکرات کیے جس سے حالات خراب ہوگئے

آج جو بدامنی ہے وہ اسی پریکٹس کا نتیجہ ہے ہمیں اندر سے خطرہ ہے، خصوصی انٹرویو میں دعوی

پشاور (غگ رپورٹ) پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے انکشاف کیا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے دور حکومت میں افغانستان سے کالعدم ٹی ٹی پی کے تقریباً 40 ہزار لوگوں کو پاکستان لاکر بسانا چاہتی تھی۔ جنرل ( ر ) فیض حمید نے افغان عبوری حکومت کے ساتھ مذاکرات کی بجائے کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیے جس کا خمیازہ آج سب بھگت رہے ہیں اور وہ لوگ تب سے  پاکستان پر حملہ آور ہیں ۔

نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت کے دوران بعض دیگر کے ہمراہ وہ بھی ایک نشست میں افغان حکومت کے ذمہ داران سے ملے جس میں کالعدم ٹی ٹی پی کے معاملات پر ان سے گفتگو ہوئی اور میں نے ان سے کہا کہ اگر معاملات مزید خراب ہوگئے تو پھر آپ ہم سے گلہ نہ کریں۔

 خواجہ آصف کے مطابق اس اجلاس میں اہم وزراء مولوی یعقوب، سراج الدین حقانی اور امیر خان متقی بھی موجود تھے۔ انہوں نے طالبان وغیرہ کو دور دراز کے بعض علاقوں میں منتقل کرنے کے لیے ہم سے 10 ارب روپے مانگے۔ میں نے جب کہا کہ اگر ہم یہ دے دیں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ واپس نہیں آئیں گے اس پر وہ خاموش ہوگئے۔

خواجہ آصف نے کہا یہ اس وقت کی بات ہے جب کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ سیز فائر نہیں تھی۔ ان کے بقول پاکستان کو باہر سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے باہر کے خطرات سے ہم آسانی کے ساتھ نمٹ سکتے ہیں ہمیں خطرہ اندر سے ہے اور اس خطرے سے نمٹنا لازمی ہے۔

یاد رہے کہ عمران خان دور حکومت میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ کابل میں مذاکرات کیے گئے تھے جس کے نتیجے میں سینکڑوں دہشت گردوں کو افغانستان سے واپس لایا گیا اور سینکڑوں کو صدر علوی کے ذریعے معافیاں دیکر رہا کردیا گیا جس کے نتیجے میں پاکستان میں حملوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا تاہم حیرت کی بات یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں دو بار اس پراسیس سے خود اور جنرل (ر) فیض حمید کو لاتعلق قرار دیتے ہوئے اس مذاکراتی عمل کی تمام ذمہ داری سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر ڈال دی حالانکہ بعد میں اس پریکٹس کے لیے خیبرپختونخوا حکومت بھی بہت متحرک رہی۔

(2 جنوری 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts