تحریر: اے وسیم خٹک
میں چونکہ بچوں کا لکھاری رہا ہوں اور کبھی کبھی یہ سوچتا ہوں کہ ہم بچوں کے لئے کیا کچھ نہیں کرتے؟ انہیں اچھا پہننے کو دیتے ہیں اچھا کھانے کو دیتے ہیں اور اچھے سکولوں میں داخلہ کرواتے ہیں ا ن کی ہر چھوٹی خواہش کو پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہم ان کے ساتھ ایک زیادتی کرتے ہیں انہیں نصاب کے کتابوں کے علاوہ غیر نصابی کتابوں سے دور رکھتے ہیں اور نہ ہی اس بارے میں سوچتے ہیں کہ بچوں کو کتابیں کورس کے علاوہ بھی ضروری ہیں خاص کر انہیں تاریخ سے بے بہرہ کرتے ہیں ۔ اس بارے میں نہ ہی حکومت کی کوئی توجہ ہے اور نہ ہی والدین کی ۔ لائبریریاں ویران ہوگئی ہیں وہاں صرف بوڑھے بابے ہی بیٹھے ہوتے ہیں جو صرف وقت گزاری کرتے ہیں۔ ہم ڈرامہ بھی بچوں کے لئے نہیں لکھتے وہ بھی بڑوں کے لئے لکھے جاتے ہیں کوئی فلم ہم بنانے کی جسارت نہیں کرتے ۔ کڈیوٹیوب پر انگریزوں کے ساتھ ساتھ انڈیا کی اجاردہ داری ہے،وہ بچوں کو ادب مہیا کر رہےہیں جبکہ پاکستان میں ہم اس بات سے کوسوں دور ہیں۔
جس قسم کے آج کل ملک میں حالات چل رہے ہیں ،جہاں دہشت گردی کے واقعات تواتر سے رونما ہورہے ہیں۔ بچے خوفزدہ ہوجاتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ یہ کیوں ہو رہا ہے تو ہمارے پاس جواب نہیں ہوتے ۔ ہمارے ہیرو انڈیا کے ہیرو کیوں نہیں ہیں؟ انڈیا کے ہیرو ہمارے ہیرو کیوں نہیں ہیں ؟ دہشت گردی کیوں ہورہی ہے ، بچوں نے کیا قصور کیا تھا جب آرمی پبلک سکول میں 150سے زیادہ بچوں کو شہید کیا گیا تھا ؟ وہ تو الف ب پ پڑھنے گئے تھے وہ کیوں مارے گئے ؟ ان جیسے بہت سے سوالات کے جواب ہمارے والدین کے پاس نہیں ہوتے ۔ وہ اس لئے کہ ہم بچوں کے ادب اور بچوں کے ادیبوں کو کوئی توجہ نہیں دیتے ۔ہیری پورٹر کی رائٹر کی زندگی دیکھیں اور ہمارے مفلوک الحال رائیٹر کی زندگی دیکھیں تو اندازہ ہوجائے گا۔
یہاں اگر ہم نے امن کے قیام کے لئے کوششیں کرنی ہیں تو ہمیں مرد اور خواتین کے ساتھ بچوں کو بھی آگہی دینی ہوگی کیونکہ پاکستانی معاشرے میں بچوں کے ادیب امن کو برقرار رکھنے اور ہم آہنگی کو فروغ دینے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے، ان ادیبوں کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے اور ان کے کام شاذ و نادر ہی مرکزی دھارے کے میڈیا میں جگہ پاتے ہیں۔ یہ غفلت ٹیلی ویژن تک بھی پھیلی ہوئی ہے، جہاں فی الحال بچوں کے لیے کوئی مخصوص پروگرام نہیں ہے۔ یہ ماضی کے برعکس ہے جب “عینک والا جن” جیسے شوز 1990 کی دہائی میں نوجوان ناظرین کو مسحور کرتے تھے اور آج بھی خوشگوار یادوں کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں۔
بچوں کے لیے مخصوص پروگرامنگ کی عدم موجودگی خاص طور پر تشویشناک امر ہے کیونکہ ملک میں دہشت گردی اور تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگرچہ کئی ڈرامے، فلمیں اور گانے ان مسائل کو اجاگر کرتے ہیں، لیکن وہ شاذ و نادر ہی نوجوان ناظرین کے لیے موزوں ہوتے ہیں۔ بچے ایسی عمر کے مطابق مواد سے محروم رہتے ہیں جو انہیں اپنے اردگرد کی دنیا کی پیچیدگیوں کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے میں مدد دے سکے۔ میڈیا کی اس نمائندگی کی کمی نہ صرف بچوں کو دلچسپ اور تعلیمی مواد سے محروم کرتی ہے بلکہ دہشت گردی جیسے اہم مسائل کو ان کے نقطہ نظر سے حل کرنے کے مواقع بھی گنوا دیتی ہے۔
موجودہ صورتحال کے پیش نظر، حکومت کا یہ ایک مؤثر اقدام ہو سکتا ہے کہ بچوں کے ادیبوں کے ساتھ رابطہ کریں اور انہیں ایسے مواد تخلیق کرنے کی ترغیب دیں جو اہم سماجی مسائل، بشمول دہشت گردی، کو اجاگر کرے۔ بچوں کے لیے تحریر کردہ کہانیاں اور ڈرامے ان کے ذہنوں پر مثبت اثرات ڈال سکتے ہیں اور انہیں پرامن بقائے باہمی کے اصولوں سے روشناس کروا سکتے ہیں۔
حکومتی حمایت مختلف شکلوں میں ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر فنڈنگ پروگرامز کا قیام، بچوں کے ادیبوں کے کام کو دکھانے کے لیے پلیٹ فارمز بنانا، اور ان کاموں کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنا،میڈیا ہاؤسز کے ساتھ مل کر بچوں کے پروگرام تیار کرنا جو دہشت گردی کے خاتمے اور امن کو فروغ دینے کے لیے اہم ہیں، ایک اور اہم قدم ہے۔ اس طرح کے اقدامات نہ صرف بچوں کے ادیبوں کی صلاحیتوں کو پروان چڑھائیں گے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنائیں گے کہ نوجوان ناظرین امید، عزم اور امن کے پیغامات حاصل کریں۔
موجودہ دور میں بچوں کے لیے دہشت گردی کے مسئلے کو اجاگر کرنے والے مخصوص پروگراموں کی اشد ضرورت ہے۔ یہ پروگرام نہ صرف بچوں کو اس اہم مسئلے کے بارے میں آگاہ کریں گے بلکہ ان میں اس سے نمٹنے کے لیے ذہنی استعداد بھی پیدا کریں گے۔ اس سلسلے میں بچوں کے ادیبوں کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جو کہانیوں اور کرداروں کے ذریعے بچوں کو مثبت اور پرامن معاشرتی اقدار سکھا سکتے ہیں۔
بچوں کے ادب کے ذریعے انہیں سچائی اور حقائق سے آگاہ کرنا بھی ضروری ہے۔ بچے آج کل بہت زیادہ سوالات کرتے ہیں اور انہیں حقائق سے باخبر رکھنے کے لیے سب کچھ سچ بتانا چاہیے۔ جو ہمارے ہیرو گزرے ہیں ان کے بارے میں معلومات اگر ویڈیو کی شکل میں دی جائے تو بہترین ہوگا۔ کیونکہ بچے ہمارا مستقبل ہیں، اس لیے بچوں کو زیادہ طور پر ملکی کاموں میں اور معلومات دینے میں شامل کرنا چاہیے۔ کتاب کلچر، ڈرامہ کلچر، تھیٹر کی شکل میں ان کو بتایا جا سکتا ہے اور یہ کام صرف اور صرف بچوں کے ادیب ہی کر سکتے ہیں۔