پشاور(عرفان خان)خیبر پختونخوا ایپکس کمیٹی نے صوبے میں دہشتگردوں کے خلاف بلا امتیاز کاروائی پر اتفاق کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دہشت گرد ہر روپ میں قابل مذمت ہیں اور انکے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے گی۔ اس سلسلے میں پولیس کو وزیر اعلیٰ نے احکامات دیئے ہیں کہ اگر کوئی بھی مسلح غیر سرکاری شخص پایا گیا تو اسے گرفتار کر کے اسکے خلاف بھر پور قانونی کاروائی کی جائے گی۔ مزید براں، کسی بھی غیر سرکاری مسلح گروہ کے دفاتر ، اڈے یا چیکنگ غیر قانونی ہے اور انکے خلاف پولیس بلا تفریق ایکشن لے گی اور یہ امر تمام صوبے کیلئے ہے۔
وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی زیر صدارت ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں کور کمانڈر پشاور اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی جبکہ بنوں امن جرگہ کے مطالبات پیش کرنے کےلیے 5 ارکان بھی ایپکس کمیٹی کے اجلاس شریک تھے۔
اجلاس کے بعد جاری مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ عسکری اداروں نے واضح کیا کہ خیبرپختونخوا میں کوئی آپریشن نہیں ہو رہا۔ دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائی پولیس اور سی ٹی ڈی کرےگی، سرحد کے قریب ایسے علاقوں میں جہاں پولیس کارروائی نہ کرسکے وہاں فوج کی مدد لی جائے گی، پولیس کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں کہ ہر وقت گشت کو یقینی بنایا جائے۔اسی مقصد کیلئے انکی استعداد بشمول نفری، گاڑیاں، بکتر بند ، آتشیں ہتھیار بڑھائی جارہی ہے۔ البتہ کچھ علاقوں کی نوعیت، جغرافیہ اور بارڈر سے نزدیکی ایسی ہے کہ افواج پاکستان کی مدد کے بغیر کاروائی ممکن نہیں۔ ایسی صورت میں حالات کے مطابق کاروائی کی جائے گی تا وقتہ کہ سی ٹی ڈی اور دیگر اداروں کی استعداد اس قابل ہو سکے۔پولیس کو ہدایت جاری کر دی گئی ہے کہ فوری طور پر باقاعدہ اور ہمہ وقت گشت کو یقینی بنائے اور موجودہ نفری اور گاڑیوں سے تمام صوبہ بشمول جنوبی اضلاع کو ترجیحی بنیادوں پر اضافی مدد فراہم کرے۔ نئی آسامیوں کی تخلیق میں بھی ان تمام علاقوں کو ترجیح دی جارہی ہے اور یہ سلسلہ جاری رہےگا۔
اعلامیے کے مطابق مشکوک علاقہ جات و مدارس پر کارروائی سی ٹی ڈی کی ذمہ داری ہے اور یہ کاروائی سی ٹی ڈی کرے گی۔ چونکہ سرحدی قبائلی اضلاع کے عوام مقامی قبائل کے ساتھ تجارت پر انحصار کرتے ہیں جسکے لئے مختلف سر حدوں پر نقل و حرکت ہوتی رہی ہے جیسے کہ طور خم ، خرلاچی ، انگور اڈہ۔ اس طرح غلام خان اور باجوڑ و مہمند کے روایتی بار ڈرز پر بھی تجارت کی اجازت دی جائے ( اس سلسلے میں کیس وفاقی حکومت کے پاس پہلے سے پیش ہے )۔اس سے مقامی روز گار ملے گا اور خوشحالی بھی آئے گی اور قانونی کاروبار سے سمگلنگ کی بھی حوصلہ شکنی ہو گی اور محصولات میں بھی آمدن ہو گی۔
اعلامیے کے مطابق عوام اور اداروں کے مابین بعض اوقات غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں جن کا فوری اور مقامی حل نہایت ضروری ہے۔کمشنر کی سطح پر کمیٹیاں مقرر ہونگی جن میں عوامی نمائندے ، سول ، عسکری اور پولیس کے نمائندے ہونگے جو ایسے کسی بھی واقعہ یا مسئلہ پر فوری جرگہ بلائیں گے اور قابل عمل حل نکالیں گے تاکہ عوام اور تمام ادارے ملکی امن اور ترقی کیلئے ہم آہنگی سے مشترکہ لائحہ عمل بنا کر آگے بڑھ سکیں۔ ایسی کمیٹیاں ضلعی سطح پر بھی تشکیل دی جائیں گی۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بنوں واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کیلئے عدلیہ کو درخواست دی جائے گی۔ تاہم حکومت اپنی انکوائری بھی کرائے گی اور ذمہ داران کا تعین کرے گی۔اپیکس کمیٹی کی رائے میں پر امن احتجاج ہر شہری کا آئینی حق ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ سب کا یہ فرض ہے کہ قانون اور ضابطہ اخلاق کی پاسداری ہو ۔ لاقانونیت اور پر تشدد احتجاج سے گریز کیا جائے۔ تا کہ دیگر عناصر اس کو کسی اور مقصد کیلئے استعمال نہ کرے۔
مزید کہا گیا ہے کہ پاک فوج، پولیس اور دیگر دفاعی ادارں اور عوام نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے لازوال قربانیاں دی ہیں اور اس لئے کسی بھی ایسے غیر جمہوری ایجنڈا اور پراپیگنڈاجس سے ان کی یا ان کے خاندان والوں کی دل آزاری ہو، سے اجتناب کیا جائے۔اس دوران بعض عناصر نے سرکاری اداروں پر بے جا تنقید کی جس سے قربانیاں دینے والے ہمارے جوانوں اور افسران کی دل آزاری ہوئی جو کہ ایک قابل افسوس امر ہے۔ اپیکس کمیٹی کی رائے میں مستقبل میں اس طرح کے رویئے کی گنجائش نہیں۔