تحریر: فہمیدہ یوسفی
پاکستان کی تاریخ میں فرقہ واریت نے کئی بار ایسے زخم دیے ہیں جو برسوں بعد بھی مندمل نہیں ہو سکے۔ مگر کرم کا مسئلہ، فرقہ واریت کے نام پر جاری دیگر تنازعات سے مختلف اور پیچیدہ ہے۔ یہ صرف مذہبی اختلافات کی جنگ نہیں، بلکہ جغرافیائی، قبائلی اور معاشی عوامل کا ایک ایسا گورکھ دھندہ ہے جو حل کی ہر کوشش کو مشکل بنا دیتا ہے۔
کرم تنازعات کا محور کیوں؟
پاکستان میں شیعہ اور سنی مل جل کر رہتے ہیں، یہاں تک کہ خیبر پختونخوا کے بیشتر علاقے اس حوالے سے مثالی سمجھے جا سکتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی ہم کوہاٹ سے ہنگو، اور پھر کرم کی طرف بڑھتے ہیں، حالات یکسر بدل جاتے ہیں۔ ہنگو، صدہ، بالش خیل، اور پاراچنار جیسے علاقوں میں مذہبی تنازعات نے جڑ پکڑ لی ہے۔ ایک اہم وجہ یہاں کے قبائلی نظام کی پیچیدگی اور زمین کی ملکیت کے تنازعات ہیں۔
کرم کے قدرتی وسائل جیسے نیفرائیڈ اور جم اسٹونز، اس تنازع کو مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔ مختلف قبائل ان وسائل پر حق جتاتے ہیں اور یہ تنازعات فرقہ واریت کو ہوا دینے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک سڑک جو ہنگو سے پاراچنار کو ملاتی ہے، بار بار بندش کا شکار ہوتی ہے جس سے مقامی افراد کے لیے زندگی مزید دشوار ہو جاتی ہے۔ خوراک، دوائیوں، اور دیگر ضروری اشیاء کی عدم دستیابی نے کئی بار انسانی بحران کو جنم دیا ہے۔
فرقہ واریت کے پیچھے چھپے عوامل
کرم میں فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے والے عوامل صرف داخلی نہیں ہیں، بلکہ بیرون ملک رہنے والے افراد بھی سوشل میڈیا کے ذریعے تنازع کو ہوا دیتے ہیں۔ ان ویڈیوز اور پیغامات میں فخریہ انداز میں ایک دوسرے کو چیلنج کیا جاتا ہے اور اموات کو کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف مقامی امن کے لیے خطرہ ہے بلکہ قومی سطح پر بھی ہماری سماجی ہم آہنگی کو متاثر کر رہا ہے۔
امن کا راستہ: کیا کرنا ہوگا؟
یہ کہنا آسان ہے کہ اگر وزیرستان کے لوگ غیرقانونی اسلحہ ترک کر سکتے ہیں تو کرم کے لوگ کیوں نہیں؟ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر مسئلے کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ وزیرستان کے امن کے پیچھے ایک منظم ریاستی حکمت عملی تھی، جس میں فوج، مقامی جرگے، اور دیگر اسٹیک ہولڈرز نے مل کر کام کیا۔ کرم میں بھی ایسا ہی جامع اور غیر جانبدار حل درکار ہے۔
1. غیر قانونی اسلحے کا خاتمہ:
کرم میں موجود غیر قانونی اسلحہ اس تنازع کو مزید طول دیتا ہے۔ ایک مربوط ریاستی حکمت عملی کے تحت اسلحے کے خاتمے کو یقینی بنانا ہوگا۔
2. زمین کے تنازعات کا حل:
زمین کی ملکیت کے مسائل کو حل کیے بغیر یہاں امن ممکن نہیں۔ ایک آزاد اور غیر جانبدار کمیشن کے ذریعے زمینوں کی تقسیم اور وسائل کے حقوق طے کیے جا سکتے ہیں۔
3. تعلیمی اور سماجی آگاہی:
فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں کے نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار کے بہتر مواقع فراہم کیے جائیں۔ ساتھ ہی سماجی آگاہی مہمات کے ذریعے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے۔
4. ریاستی عملداری:
کرم جیسے حساس علاقوں میں ریاست کی موجودگی کو مضبوط کرنا ہوگا۔ امن و امان کے قیام کے لیے صرف جرگوں پر انحصار کافی نہیں ہوگا، بلکہ انتظامیہ کو ایک فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔
5. سوشل میڈیا پر نظر:
بیرون ملک مقیم افراد کی جانب سے تنازع کو ہوا دینے والے مواد پر نظر رکھنے کے لیے سخت قوانین نافذ کیے جائیں۔
ایک اجتماعی ذمہ داری
کرم کا مسئلہ محض وہاں کے قبائل یا حکومت کا نہیں، بلکہ پورے ملک کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ کرم کے عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوگا۔ ہر گولی، ہر موت، اور ہر نفرت انگیز پیغام صرف نقصان پہنچائے گا۔
امن کی خواہش اور اس کی کوشش کرم کے عوام کو خود کرنی ہوگی۔ یہ فیصلہ انہیں کرنا ہوگا کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کو جنگ کے شعلوں میں جھونکنا چاہتے ہیں یا انہیں ایک پرامن اور ترقی یافتہ کرم دینا چاہتے ہیں۔ کیونکہ حقیقی تبدیلی ہمیشہ اندر سے شروع ہوتی ہے۔