GHAG

کرم شیعہ سنی فسادات ، تاریخ ، حقائق ، وجوہات اور تجاویز

تحریر: خالد خان

پاکستانی عوام بالعموم اور پشتون بالخصوص وہ بدقسمت لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ پرائی لڑائیاں لڑی ہیں۔ پشتون انتہائی آسانی کے ساتھ اغیار کے برپا کئے ہوئے جنگوں کا ایندھن بنتے ہیں۔ کہیں یہ لوگ خود پر مذہب کا تیل چھڑکتے ہیں تو کہیں حب الوطنی کے تیزاب میں غوطہ لگاتے ہیں اور کہیں پر اجرت لیکر خود سوزی ، وطن سوزی اور قوم سوزی کرتے ہیں۔ ہمیشہ سرزمین عرب کی لڑائی پشتونوں نے اپنی مٹی پر لڑی ہے مگر باوجود ہزارہا نقصانات کے کوئی عبرت ابھی تک حاصل نہیں ہوئی ہے۔ مذہبی لڑائیاں تو ایک طرف، ہمیشہ پشتونوں نے کبھی ایک بہانے اور کبھی دوسرے بہانے وسطی ایشیا میں عالمی سامراجی اقتصادی جنگوں میں ایندھن بننے میں تامل سے کام نہیں لیا ہے۔کرم کے وسیع جنت نظیر وادی کو بھی شیعہ سنی آگ نے بھسم کرکے رکھ دیا ہے اور حالیہ پرتشدد واقعات نئی تباہی کے نقیب دکھائی دے رہے ہیں۔ گزشتہ طویل عرصے سے کرم کے مجموعی حالات انتہائی تشویشناک چلے آرہے ہیں جسکی تاریخی پس منظر اور متعدد زمینی حقائق ہیں۔

کرم میں فرقہ وارانہ فسادات کا آغاز، 1938ء

سال 1938 میں غیر منقسم ہندوستان کے شہر لکھنئو میں شروع ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات نے کرم میں بھی فرقہ واریت کی بنیاد رکھ دی ۔

لکھنو کی فرقہ ورانہ فسادات میں اہل تشیع کی مدد کے لیئے کرم کے طوری قبائل ہندوستان جانا چاہتے تھے جنکے سامنے مقامی سنی قبائل دیوار بن گئے اور لکھنو کی لڑائی کرم میں لڑنے کے لیے میدان تیار ہوا جسکے بعد کرم کے لوگوں نے کبھی سکھ کا سانس نہیں لیا۔ ہر دس پندرہ سال بعد صدہ یا پاراچنار شہر ان فرقہ وارانہ فسادات کا مرکز بنتا رہتا ہے۔

سال 1938کے لکھنو شیعہ سنی فسادات کے بعد 1966 میں صدہ میں ماتمی جلوس کی وجہ سے خون اور آگ کا دریا گرم ہوا۔

تیسری مرتبہ 1970 میں جامع مسجد پاڑہ چنار کے مینار کی تعمیر پر شورش برپا ہوا جبکہ 1977 میں جامع مسجد پاڑہ چنار کے موذن کو جان سے مارنے کی کوشش پر فسادات پھوٹ پڑے۔

سال 1982 میں صدہ کے ایک اہل تشیع ملک پر الزام لگا کہ انہوں نے لوگوں کو مبینہ طور پر مذہبی توہین پر مبنی گالیاں دی ہیں جسکی وجہ سے خون خرابہ ہوا جبکہ 1996 میں پاراچنار ہائی سکول میں سنی طالب علموں کے قتل پر ہنگامے شروع ہوئے۔

اپریل 2007 میں ربیع الاول کے جلوس پر پھتراو کا واقعہ پیش آیا جو خونریزی پر منتج ہوا جبکہ نومبر 2007 میں ایک مبینہ قتل کے الزام کے نتیجے میں فرقہ ورانہ فسادات ہوئے جسکے بعد حالات مسلسل خراب ہوتے رہے۔

2007ء کے خونریز فسادات

سال 2007 کے خونریز فسادات کی سنگینی بہت شدید تھی جس میں امتحانی ہال میں ڈیوٹی پر موجود متعدد اساتذہ کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو جلایا گیا تھا اور گاڑیوں کو روک کر اس میں سواریوں کو گولیاں ماری گئیں تھیں۔ ان فسادات میں املاک کو لوٹنے اور جلائے جانے کے واقعات بھی رونما ہوئے اور کثیر تعداد میں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے جو آج تک گھروں کو واپس نہیں لوٹ سکیں ہیں۔ان فرقہ ورانہ فسادات کے نتیجے میں مرکزی شاہراہ بھی طویل عرصے تک ٹریفک کے لئے بند رہی جو سال 2012 میں معمول کے ٹریفک کے لیے کھول دی گئی۔

کرم کے فرقہ وارانہ کشیدگی کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے کہ تمام متعلقہ ادارے فرائض کی ادائیگی میں مکمل طور پر ناکام رہے اور ریاست اس تمام عرصے میں مفلوج رہی۔ کرم کے بندوبستی اضلاع میں ضم ہونے سے قبل وہاں کے پولیٹیکل انتظامیہ نے فریقین کے درمیان بےتحاشا وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے روایتی جرگوں کے ذریعے امن قائم کیا تھا جسکے لیئے بہت اہم فیصلے کیے گئے تھے۔ ان فیصلوں میں کوہاٹ اور مری معاہدے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں لیکن ریاستی ذمہ دار ادارے ان امن معاہدوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے۔

کرم میں جائیدادوں کی سرکاری تقسیم میں ناکامی

حکومت کی ایک اور نااہلی نے فرقہ واریت کی جلتی آگ پر تیل کا کام کیا ہے اور ہنوز کرم میں جائیدادوں کی سرکاری تقسیم میں ناکامی ہے۔ شاملاتی رقبے زیادہ تر نجی تنازعات کا موجب بنتے ہیں جنہیں ذاتی مفادات کے لیے فرقہ ورانہ رنگ دیا جاتا ہے۔ اب اسے بدقسمتی ہی کہی جاسکتی ہے کہ شاملاتی جائیدادیں شیعہ اور سنی دیہاتوں کے درمیان واقع ہیں جو مسلسل شورش کا باعث بن رہے ہیں اور جنہیں مذہبی اور مسلکی رنگ دیا جاتا ہے۔ ریاستی اداروں کی عدم موجودگی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے مقامی لوگ اپنے نجی مسائل مذہبی راہنماوں کے پاس لیکر جاتے ہیں جہاں ان کی نوعیت یکسر بدل جاتی ہے۔ مذہبی جنونیت سے پہلے اس طرح کے معاملات مقامی عمائدین جنہیں عرف عام میں ملک کہا جاتا ہے، انکے پاس لوگ لیکر جاتے تھے جسکی پشتون روایات کے مطابق مناسب حل تلاش کیا جاتا تھا اور یوں کرم کا امن کبھی خطرے سے دوچار نہیں ہوا تھا۔

مذہبی رہنماؤں کی اجارہ داری

مذہبی رہنماوں کی اجارہ داری کے سبب جائداد سے متعلق اختلافات کو ہوا دی جاتی ہے اور عام اقتصادی معاملات کو مذہبی رنگ دیا جاتا ہے جنہیں جانبین مذہبی قائدین اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ زمینوں کے معاملات کے لئے جانبین مسلکی تنظیمیں قائم کی گئی ہیں جو انجمن حسنیہ اور اقوام اہل سنت کے نام سے معروف ہیں۔ سال 2007 تک اقوام اہل سنت کی قیادت انجمن فاروقیہ پاراچنار کر رہی تھی لیکن پاراچنار سے اہل سنت کے انخلاء کے بعد یہ انجمن عملی طور پر معدوم ہوگئی۔اگرچہ یہ تنظیم پاراچنار سے نقلی مکانی کرنے والے لوگوں کی رہنمائی کا دعوی کررہی ہے مگر ان کی کار کردگی کبھی بھی مثبت اور قابل ذکر نہیں رہی ہے۔

افغان جہاد کے اختتام پر افغان جہادی رہنماوں نے بہت بڑی تعداد میں انتہائی جدید اور مہلک اسلحہ کرم کے مقامی تنظیموں اور عام لوگوں پر فروخت کیا جسکی وجہ سے نہ صرف یہ کہ بھاری ہتھیار یہاں منتقل ہوئے بلکہ مقامی آبادی کی جنگی جنون کو بھی اس اسلحے سے تقویت ملی اور جانبین رضاکاروں نے جنگی مہارت حاصل کی۔ پاراچنار کے حالات پر ایران کے انقلاب کا بھی بہت گہرا اثر پڑا اور شہر کے تمام شاہراہوں پر ایرانی راہنماوں کے قد آدم تشہیری بورڈز لگ گئے۔ انقلاب سے پہلے مقامی شیعہ آبادی پر اسطرح ایران کا اثر کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ شام کی لڑائی میں کرم سے بہت سارے نوجوانوں نے بھاری اجرت کے عوض حصہ لیا ۔ شام اور عراق میں لڑنے کے بعد ان نوجوانوں کی کھپت اب کرم میں ہو رہی ہے۔ کیا یہ ریاست کے لیے چیلنج نہیں ہے؟ دنیا میں کہیں بھی شیعہ سنی تنازعات سر اٹھائے، پاراچنار میں فرقہ ورانہ آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ یتیموں اور بیواوں کے نام پر آنے والی غیر ملکی امداد انہی مسلکی لڑائیوں پر خرچ ہوتی ہے۔

کرم کے صوبہ پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد اجتماعی علاقائی ذمہ داری کا قانون ایف سی آر ختم ہوچکا ہے، جرائم میں اضافہ ہوا ہے اور مرکزی شاہراہ پر ٹارگٹ کلنگ اب روز کا معمول بن چکا ہے۔ شاملاتی رقبوں کے اختلافات سے جنم لینے والے حالات فرقہ وارانہ تشدد کی راہ ہموار کرتے ہیں جسکا زندہ مثال حالیہ پر تشدد واقعات ہیں جو جائداد کے مسائل سے دہشت گردی میں بدل گئے۔ گزشتہ سالوں میں ہونے والے خونریز واقعات گیدو اور پیواڑ علی زئی قوم کے درمیان جائیداد کے تنازعات تھے۔ ان تنازعات میں زیادہ نقصان منگل گیدو قبائل کا ہو رہا ہے کیونکہ ان کے آمدورفت کا کوئی دوسرا راستہ سوائے مرکزی شاہراہ کے نہیں ہے اور وہ مرکزی شاہراہ کو استعمال کرتے ہوئے پیواڑ سے گزرتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کو اکثر راستے میں ہی نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ایک اور بدقسمتی جانبین کا سوشل میڈیا کا غلط اور غیر ذمہ دارانہ استعمال ہے جس میں فریقین کے بیرونی ممالک میں رہائش پزیر افراد انتہائی منفی کردار ادا کر رہے ہیں جو مزید تفریق اور خون خرابے کا باعث بن رہی ہے۔ ان مسائل کا حل صرف ریاست کے پاس ہے کہ ماضی میں کئے گئے امن معاہدوں پر نیک نیتی سے عمل کرے، ریاست علاقے میں اپنا رٹ قائم کرے، غیر جانبدار اور منصف رہے اور مذہبی قائدین سے اختیارات لیتے ہوئے قومی راہنماوں کے ساتھ معاملات طے کریں۔ ریاست پاکستان نے جب بھی اپنے اساسی قانون پر حرف بحرف عمل کیا اسی دن امن قائم ہوجائے گا۔

پاکستان تحریک انصاف کی پختونخوا حکومت سیاسی اور بیرونی لڑائی اندرونی محاذوں پر نہ لڑے اور نہ ہی اچھے اور برے دہشت گردوں کے انتخاب کا مشق جاری رکھے۔ صوبائی حکومت خواب غفلت سے بیدار ہو کر کرم کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے ورنہ بہت دیر ہوجائیگی اور ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔

(6جنوری 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts