تحریر: اے وسیم خٹک
خیبر پختونخوا، خاص طور پر ضلع کرم، ایک طویل عرصے سے فرقہ واریت، قبائلی تنازعات اور امن و امان کے مسائل کا شکار رہا ہے۔ ان حالات میں امن قائم کرنے کے لیے مختلف جماعتوں، رہنماؤں، اور حکومت نے اپنی اپنی سطح پر کوششیں کی ہیں۔ ضلع کرم کے امن معاہدے کی تفصیلات اور حالیہ تناظر میں علما اور حکومت کے کردار پر روشنی ڈالنا نہایت اہم ہے۔
ضلع کرم کے امن معاہدے کا مقصد شیعہ اور سنی فرقوں کے درمیان تنازعات کو ختم کرنا، زمینوں کے جھگڑوں کو حل کرنا، اور ایک پرامن ماحول قائم کرنا تھا۔ اس معاہدے میں دونوں فرقوں کے عمائدین، مقامی رہنماؤں، اور حکومت کے نمائندوں نے مل کر اتفاق کیا کہ آئندہ تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے گا۔
علماء نے اس معاہدے میں بنیادی اور اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے لوگوں کو اس بات پر قائل کیا کہ امن ہی ترقی کا راستہ ہے۔ معاہدے کے نکات کو عوام میں قبول کروانے کے لیے مذہبی پلیٹ فارم استعمال کیے گئے اور خطبات میں امن و آشتی کا پیغام دیا گیا۔ ساتھ ہی علماء نے سماجی مسائل کے حل اور فرقہ وارانہ تنازعات کے خاتمے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔
حکومت نے اس معاہدے میں ثالث کا کردار ادا کیا اور اس کی کامیابی کے لیے عملی اقدامات کیے۔ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے امن قائم رکھنے کی کوشش کی گئی، مذاکرات کا اہتمام کیا گیا اور ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے تاکہ علاقے میں معاشی اور سماجی استحکام پیدا ہو۔
امن معاہدہ ایک کامیاب پیشرفت رہی، مگر موجودہ حالات میں کچھ چیلنجز اب بھی موجود ہیں۔ بعض انتہا پسند عناصر فرقہ وارانہ کشیدگی کو دوبارہ ہوا دے سکتے ہیں، جبکہ معاہدے کے بعض نکات پر عمل درآمد نہ ہونا بداعتمادی کا باعث بن سکتا ہے۔ معاہدے کی کامیابی کے لیے عوام کی شمولیت بھی ضروری ہے۔
ضلع کرم کا امن معاہدہ خیبرپختونخوا کے دیگر علاقوں کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے اگر اس پر مکمل طور پر عمل درآمد کیا جائے۔ علماء نے مذہبی رہنمائی فراہم کی، جبکہ حکومت نے انتظامی اور مالی معاونت کی مگر جب حالات خراب تھے اور گاڑیوں پر حملہ کیا گیا اس کے بعد بگن کا واقعہ روکا جاسکتا تھا کہ پورے کے پورے گاؤں کو جلادیا گیا اور حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا گیا جس کے بعد حکومتی اداروں نے اپنا کردار صرف اسلام آباد کے جلسے پر مرکوز رکھا اور 100 سے زائد لوگ اس آگ میں جھونک دیے گئے اور حالات گھمبیر ہوگئے۔ اگر حکومت چاہتی تو یہ واقعات روکے جاسکتے تھے مگر انہوں نے کچھ نہیں کیا۔
اب جب حالات کرم میں امن جرگہ کے ذریعے ٹھیک ہوگئے ہیں تو حکومت کریڈٹ لینے کی کوششوں میں مصروف ہے، حالانکہ اس میں زیادہ کردار علماء کا ہے۔ اب بات تب بنے گی جب اُن کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے جنہوں نے یہ امن سبوتاژ کرنے کی کوشش کی، ورنہ یہ حالات پھر سے خراب ہونے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ اب مشترکہ کاوشوں سے ہی امن کا خواب حقیقت بن سکتا ہے، بشرطیکہ اس پر عمل درآمد میں تسلسل رکھا جائے اور عوام کو امن کے فوائد سے آگاہ کیا جائے۔
(4جنوری 2025)