GHAG

سانحہ کرم کی تلخ یادیں

اے وسیم خٹک

چھ ماہ کا ایک معصوم بچہ بھوک سے بلک رہا تھا۔ اس کی ماں نے جلدی سے دودھ کی بوتل تیار کی، اپنے لختِ جگر کو سکون دینے کے لیے۔ بچہ اپنی ننھی سی مسکان کے ساتھ دودھ پینے ہی والا تھا کہ اچانک گولیوں کی گونج نے فضا کو چیر ڈالا۔ فائرنگ شروع ہوئی، چیخ و پکار مچ گئی اور لمحوں میں ماں اور بچے کی آواز خاموش ہوگئی۔ دودھ کی بوتل خون سے لال ہو چکی تھی۔ بچے کا ننھا سا وجود ان 40 شہداء میں شامل ہوگیا جنہیں آج پاراچنار کی زمین نے اپنے دامن میں سمو لیا۔

یہ تصویر اگر واقعی میں پاڑہ چنار کے واقعے کی ہے تو یہ منظر صرف ایک کہانی نہیں، ایک سانحہ ہے جس میں زندگی کے دروازے اتنی بے دردی سے بند کیے گئے کہ نہ زمین کانپی، نہ آسمان رویا۔ پاراچنار کے نہتے لوگ، پہلے ہی غربت، بھوک اور بے روزگاری کے قیدی، آج ایک بار پھر خون میں نہلا دیے گئے۔

یہ حملہ صرف ایک قافلے پر نہیں، انسانیت پر تھا۔ بچوں، خواتین، اور مردوں کی زندگیوں کو زمین کے تنازعات کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ جو زمین قیامِ پاکستان سے پہلے کے تنازعات کی گواہ ہے، وہاں ایک بار پھر نفرت اور فرقہ واریت کا زہر بکھیر دیا گیا۔

پولیس اور سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں مسافروں کے قافلے کو نشانہ بنانا ظاہر کرتا ہے کہ ضلع کرم میں ریاست کی رٹ مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔ یہ تیسرا بڑا حملہ ہے، لیکن آواز بلند کرنے والا کوئی نہیں۔ سیاستدان اپنی کرسیوں کی جنگ میں مصروف ہیں، اور بے گناہ عوام کے خون کا حساب دینے والا کوئی نہیں۔

جو معصوم دودھ کے لیے روتا تھا، وہ اب جنت کے دودھ کا پیاسا ہے۔ خون سے لت پت بوتل ہماری بے حسی کا آئینہ ہے، اور پاراچنار کی زمین لہو میں لپٹی چیخ رہی ہے۔ یہ چیخ، جو شاید ہمارے کانوں تک نہ پہنچے، لیکن تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ گونجتی رہے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp