GHAG

وزیر اعلیٰ کے رویے اور مولانا کے بیانات پر قائدین اور ماہرین کی آراء

مولانا کو معلوم ہونا چاہیے کہ فاٹا انضمام سے قبل دہشتگردی عروج پر تھی، سابق صوبائی وزیر عامر عبداللہ

عدالتی اور انتظامی اصلاحات سمیت سیاسی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے ،عامر عبداللہ

وزیر اعلیٰ پاک فوج کی قربانیوں کا مذاق اڑاتے ہیں، منفی پروپیگنڈا کرتے ہیں، ایم پی اے صوبیہ خان

فاٹا کے نام سے الگ صوبے کی بجائے حقوق،اصلاحات پر توجہ دی جائے، شاہ جہان آفریدی

انسداد دہشتگردی کی عدالتوں سے تھوک کے حساب سے دہشت گرد رہا ہوتے آئے ہیں،عرفان خان

پشاور ( غگ رپورٹ) وزیراعلیٰ کے رویے اور مولانا فضل فضل الرحمان کے بیانات پر مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ماہرین نے تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فاٹا انضمام سے پہلے یہاں کے سیکیورٹی حالات انتہائی خراب تھے اور مولانا فضل الرحمان کا بیان حقائق کے برعکس ہے۔

ڈاکٹر عامر عبداللہ (سابق نگران صوبائی وزیر)

سابق نگران صوبائی وزیر اور ممتاز بیوروکریٹ،ماہر علاقائی امور ڈاکٹر عامر عبداللہ نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے یہ کہہ کر حقائق نظر انداز کیے ہیں کہ فاٹا انضمام سے قبل قبائلی علاقوں کے سیکورٹی یا انتظامی معاملات اور حالات بہتر تھے۔ یہ کہنا بھی درست نہیں کہ فاٹا انضمام کو امریکہ یا کسی اور کے کہنے پر ممکن بنایا گیا تھا۔ “سنو پختونخوا ایف ایم” سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فاٹا انضمام کے عمل کو ایک دو پارٹیوں کے بغیر تمام مین سٹریم سیاسی جماعتوں کا مینڈیٹ حاصل تھا اور اس پریکٹس پارلیمنٹ کی اکثریتی رائے کے نتیجے میں یقینی بنایا گیا اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ انضمام امریکہ کے کہنے پر ہوا تھا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کا یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ فاٹا انضمام سے قبل قبائلی علاقوں کے حالات درست تھے سچی بات تو یہ ہے کہ لاتعداد قبائلی عمائدین، سیاسی رہنماؤں کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے شہید کرنے اور فورسز کے شہید  نوجوانوں کے سروں سے فٹ بال کھیلنے سمیت عوامی حلقوں، اجتماعات، جنازوں اور مساجد کو نشانہ بنانے کا سلسلہ بہت پہلے شروع ہوگیا تھا اور انضمام کے بعد بعض کمزوریوں اور درکار توجہ کے باوجود ان علاقوں کے مجموعی حالات پہلے کے مقابلے میں بہتر ہوتے گئے۔ ان کے مطابق اس پورے عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے مختلف مراحل کے دوران مختلف اقدامات کیے جانے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے نگران دور حکومت میں بعض اہم امور پر  توجہ دی جس کے متعدد غیر معمولی نتائج برآمد ہوئے۔

صوبیہ خان (ایم پی اے ن لیگ)

رکن صوبائی اسمبلی صوبیہ خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جاری بدامنی کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے جس نے صوبے کے مسائل حل کرنے کی بجائے تمام توجہ اپنے لیڈر کی رہائی ، منفی پروپیگنڈا اور کرپشن پر مرکوز کر رکھی ہے اور یہ حکومت خیبرپختونخوا کے وسائل نہ صرف وفاق اور دوسرے صوبوں کے خلاف استعمال کررہی ہے بلکہ عوام کو تحفظ فراہم کرنے اور قربانیاں دینے والی فورسز خصوصاً فوج کو بھی یہ حکومت متنازعہ بنانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔

شاہجہان آفریدی (رہنما جماعت اسلامی)

جماعت اسلامی کے رہنما شاہ جہان آفریدی کے مطابق فاٹا انضمام کے لیے جو روڈ میپ بنایا گیا تھا اگر اس پر عمل درآمد ہوجاتا تو آج قبائلی اضلاع کی صورتحال بہت بہتر اور مختلف ہوتی۔ ان کے بقول فاٹا کے نام سے کسی نئے صوبے کے قیام کا کوئی مطالبہ یا تجویز بوجوہ قابل عمل اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتا۔ ان کے مطابق صوبائی حکومت اور تحریک انصاف کو ان معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور لیڈر شپ، صوبائی حکومت کی ترجیحات میں یہ بات سرے سے شامل ہی نہیں کہ صوبے میں امن ، استحکام یا ترقی کو ممکن بنایا جائے اور یہی رویہ وفاقی حکومت کا بھی ہے۔

عرفان خان (سینئر صحافی)

باخبر صحافی ، تجزیہ کار عرفان خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مولانا سمیت صوبائی حکومت اور بعض دیگر نہ صرف غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہیں بلکہ اعلیٰ عدلیہ اور انسداد دہشتگردی کی مخصوص عدالتیں اور انصاف کی فراہمی کے دوسرے ادارے بھی جاری بدامنی، کشیدگی اور بد انتظامی میں برابر کی شریک ہیں۔ عرفان خان کے بقول گزشتہ چند برسوں کے دوران ہزاروں افراد کے خلاف دہشتگردی کے مقدمات قائم ہوئے اور ان کا ٹرائل بھی ہوا تاہم ان میں سے چند سو کو ہی سزائیں سنائی گئیں اور ان میں سے بھی اکثر کو عدالتوں نے ضمانتیں دیں کیونکہ انصاف کی فراہمی کا پورا ڈھانچہ اور طریقہ کار ہی کمزور ، فرسودہ اور ناقابل عمل ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ خیبرپختونخوا آج ایک بار پھر بدترین حملوں کی زد میں ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts