عزم استحکام کے حوالے سے جو واویلا مخصوص سیاسی جماعت اوردشمن قوتوں نے مچایا اس کے بعد وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے بالکل واضح اور دو ٹوک الفاظ میں وضاحت جاری کی گئ کہ عزم استحکام ماضی میں کئے جانے والے آپریشنزسے یکسر مختلف ہے جس کا واحد مقصد غیر قانونی سرگرمیوں (Ilegal Spectrum )کو ختم کرنا ہے اور دہشتگردوں کے سہولت کار ، سمگلنگ میں ملوث مافیاز جیسے کے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا کاروبار، ٹائروں کی سمگلنگ، منشیات فروشی میں ملوث مجرمان کو پکڑنا اور ان کے دہشتگردوں سے گٹھ جوڑ کو توڑنا شامل ہے تاکے ان کی جانب سے دہشتگردوں کو مالی اعانت کا خاتمہ کیا جائے ۔
دہشتگردوں کا براہ راست تعلق اربوں کھربوں روپے کمانے والے ڈیزل سمگلرز، منشیات فروش، افغانستان اور ایران سے اشیاء خورد و نوش اور دیگر چیزوں کی سمگلنگ کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ملک کو Soft State رکھنا چاہتے ہیں-یہ دہشتگردوں کو فنڈ بھی کرتے ہیں اور ان کی سہولت کاری بھی کرتے ہیں۔
اس صورتحال کی نشاندہی سکیورٹی ذرائع بھی کئی بار کر چکے ہیں
حقیقت یہ ہے کہ عزم استحکام کیخلاف وہ قوتیں منفی پروپیگینڈا کر رہی ہیں جو اس وقت سمگلنگ، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں اور ٹائروں کے غیرقانونی کاروبار کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں، ان کو براہ راست ان غیر قانونی ذرائع سے پیسہ آرہا ہے اور وہ اس پیسے کا ایک مخصوص حصہ دہشتگردوں کو دیکر ان کی سہولت کاری بھی کر رہی ہیں ابھی تو صرف اس معاملے پر مولانا فضل الرحمنٰ بے چین دکھائی دے رہے ہیں مگر آنے والے وقت میں اور بہت سے لوگ جیسے اسد قیصر، ترکئی برادرز اور محمود خان اچکزئی وغیر عوام کے سامنے بے نقاب ہونا شروع ہو جائیں گے – ان سب کے کسی نہ کسی حوالے سے مفادات جڑے ہوئے ہیں اور یہ کسی طرح بھی نہیں چاہتے کہ اس Ilegal Spectrumکا قلع قمع ہو جائے اور ان کے کاروبار کو دھچکا لگے۔
سب کو یاد ہوگا کہ گزشتہ سال جولائی میں ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے چھاپہ مار کر اسد قیصرکے گھرسے کروڑوں روپے کی نان کسٹم پیڈ گاڑیاں برآمد کی تھیں- اس سے اندازہ ہو جانا چاہئے کہ یہ لوگ کیوں اس کیخلاف بول رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر مفادات پرست ٹولہ جوآج افغان سرحد پرسخت چیکنگ کی مخالفت کر رہا ہے، اس عمل کو روکنے کیلئے کبھی چمن اور کبھی کسی دوسرے سرحدی علاقےمیں لوگوں کو احتجاج پر پیسے دیکر اکسا رہاہے دراصل انہیں پتہ ہے کہ اگر افغانستان کی سرحد پر آنے جانے کے معاملات کو دستاویزی شکل دیدی گئی، ہر آنے جانے والے کا ریکارڈ مرتب ہو گیا ، کیا چیز آرہی ہے اور کیا چیز جا رہی ہے، اور کون ا رہا ہے اور کون جا رہا ہے سب ریکارڈ پر آگیا تو ان کے ہاں تو نوبت فاقوں تک آجائے گی اورپھر جرائم پیشتہ اور دہشتگردوں کا گٹھ جوڑ بھی ختم ہو جائے گا، پاکستان میں امن بحال ہوگا اور یہی چیز ان کوچبھتی ہے۔
مولانا فضل الرحمان جو آج عزم استحکام کیخلاف سب سے بڑھ چڑھ کر بول رہے ہیں وہ بھی کچھ عرصہ قبل واضح اور دو ٹوک الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ اگر طالبان کو کنٹرول نہ کیا گیا تو یہ پہاڑوں سے اتر کر اسلام آباد پر قبضہ کرلینگے، مگر آج جب ان کے اور ان کے حواریوں کے مالی مفادات کو دھچکا لگ رہا ہے تو مولانا فضل الرحمان کو پاکستان کے لیےطالبان کی جانب سے ایسا کوئی خطرہ نظر نہیں آرہاہے
مولانا فضل الرحمان کے بارے میں ایک تاثر یہ رہا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے اپنی سیاست چمکاتے رہے ہیں مگر اسٹیبلشمنٹ نے قطعی طور پر خود کو سیاست سے الگ کر لیا ہے جس کی وجہ سے مولانا فضل الرحمان جو حالیہ انتخابات میں شکست کھا کر سیاسی یتیم ہوچکے ہیں اور اسی بات کا انہیں دکھ ہے- مولانا کا یہ بھی کہنا کہ اسٹیبلشمنٹ خود کو سیاست سے علیحدہ کرے، اسٹیبشلمنٹ نے تو خود کو سیاست سے علیحدہ کیا ہے تب ہی تو آپ جیسے سیاست دان بے نقاب ہوئے ہیں