روخان یوسفزئی
لفظ کی طاقت لفظ کے اندر ہی موجود ہوتی ہے، صرف لفظ ”کُن“ کو دیکھیے کہ اس ایک لفظ میں قدرت نے کتنی طاقت ظاہر کی ہوئی ہے۔ یونانی فلسفی سقراط اپنے شاگردوں کوم ہمیشہ یہی وصیت کیا کرتے تھے کہ الفاظ بڑے مقدس ہوتے ہیں ان کے استعمال میں اختیاط سے کام لیا کریں کیونکہ لفظوں کا غلط استعمال بھی بہت بڑا گناہ اور جرم ہے۔ الفاظ کی پہچان اور اہمیت کے بارے میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
لفظ بظاہر لفظ ہے لیکن باطن میں اک چہرہ ہے
چہرے کیا پہچانیں جن کو لفظوں کی پہچان نہیں
اور یہ شعر مجھے اوس وقت یاد آیا جب گزشتہ دنوں ترجمان پاک فوج لیفٹینٹ جنرل احمد شریف چودھری نے پریس کانفرس کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ”عزم استحکام“ کوئی فوجی آپریشن نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر اور مربوط انسداد دہشت گردی مہم ہے۔ اس مہم کا مقصد دہشت گردوں اور مجرموں کے گٹھ جوڑ کو توڑنا ہے۔ اگر ہمارا عدالتی و قانونی نظام 9 مئی کے منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو ڈھیل دے گا اور انہیں کیفر کردار تک نہیں پہنچائے گا تو ملک میں انتشار مزید پھیلے گا اور فسطائیت بڑھے گی“ اب ترجمان پاک فوج کے الفاظ اور خیالات کا اور ان لوگوں کے الفاظ اور خیالات (جو آپریشن ”عزم استحکام“ کو صرف”سرجری“ سے تعبیر کرتے ہوئے اس کی مخالفت پر اُتر آئے ہیں) دونوں اطراف کے الفاظ اور خیالات کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو اس میں بہت بڑا واضح فرق ہے۔ کاش کوئی ان الفاظ اور خیالات کے معنیٰ و مفہوم پر سنجیدگی سے غور کریں۔ پشتو میں کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی آپ ے کہے کہ کتا آپ کی کان لے اڑا تو کتے کا پیچھا کرنے سے پہلے اپنی کان پر ہاتھ رکھیں کہ واقعی کتا کان لے کر بھاگ گیا۔ یہی روش ہمارے ملک کی بعض سیاسی جماعتوں، دانا دانشوروں اور تجزیہ کاروں نے بھی اپنائی ہوئی ہے۔ اور جان بوجھ کر “عزم استحکام” کے حوالے اپنی غلط بیانیوں سے لوگوں کے اذہان میں طرح طرح کی غلط فہمیاں اور بدگمانیاں پیدا کررہے ہیں۔ مگر اچھا ہوا کہ ترجمان پاک فوج کی مذکورہ پریس کانفرس اور وضاحت کے بعد بہت سوں کی نہ صرف آنکھیں کھل گئیں بلکہ زبانیں بھی گُنگ ہوگئیں۔ترجمان پاک فوج نے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ عزم استحکام آپریشن یعنی صرف سرجری نہیں بلکہ یہ ایک ”ہمہ گیر“ اور ”مربوط“ مہم ہے۔ جس کا مطلب ملک میں شدت پسندی، انتہاپسندی، تنگ نظری، فرقہ واریت اور دہشت گردی کی جڑوں کو کاٹنا اور ان سرچشموں کو بند کرنا ہے جہاں سے ان چیزوں کی نظریاتی تعلیم پھیلتی ہے۔ انہوں نے ملک میں موجود دین کے نام سے قائم مدارس کی بھی پوری تفصیل اور رپورٹ پیش کی کہ ان میں رجسٹرڈ مدارس اور غیر رجسٹرڈ مدارس کی تعداد کتنی ہے اور یہ کن کن بورڈز کے ساتھ منسلک ہیں, یہ انکشاف بھی قابل غور ہیں. جہاں تک ملک میں انتہاپسندی، شدت پسندی، فرقہ واریت اور دہشت گردی کی بیج یا نظریاتی تعلیم کا تعلق ہے تو
سمجھے تھے ہم کہ عشق ہے اک حسن اتفاق
دیکھا تو واقعات کا ایک سلسلہ ملا
اور یہ نظریاتی تعلیم یعنی ”انتہاپسندی“ یا ” تنگ نظری“ صرف مذہب اور فرقہ کے نام پر نہیں پھیلتی بلکہ اس کے کئی اقسام پائے جاتے ہیں جیسا کہ جماعتی انتہاپسندی، سیاسی انتہاپسندی، نظریاتی انتہاپسندی، تعلیمی انتہاپسندی، قبائلی انتہاپندی، علمی انتہاپسندی، دانشورانہ انتہاپسندی، قومی انتہاپسندی وغیرہ وغیرہ۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں جہاں سے جس جس قسم اور جن جن ذرائع سے انتہاپسندی اور شدت پسندی پھیلتی ہے اس کا تدارک اسی طریقے اور ذرائع سے ضروری ہے۔
لہذا ترجمان پاک فوج کے لفظ ”ہمہ گیر“ کے معنی و مقصد کو سمجھنے کی ضرورت ہے یعنی ایک بہت بڑا وسیع، گہرا، مخلتف الطراف، مربوط اور مضبوط نظریاتی مہم۔ جس میں ان تمام ذرائع کو بروئے کار لایا جائے گا جس سے ملک دشمن عناصر کا زہریلا پروپیگنڈا توڑا جاسکے۔ خصوصاً سوشل میڈیا کے مختلف ٹولز کے ذریعے ریاست مخالف مہم بڑے منظم انداز میں زور شور سے جاری ہے۔جس کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام کے مابین بداعتمادی، نفرت اور خلیج پیدا کرنا ہے۔اور اس مقصد کے لیے ایک مخصوص گروہ دہشت گردوں کی نظریاتی و مادی سہولت کاری بھی کررہا ہے۔ اور سب سے بڑا مسئلہ یہی” نظریاتی اور مادی“ سہولت کاری کا ہے۔ جس کی جڑوں تک پہنچنے اور کاٹنے کے لیے ”ہمہ گیر اور مربوط انسداد دہشت گردی مہم“ مشترکہ طور پر سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔ مگر دہشت گردی کے خلاف یہ” مہم“ تب تک اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکتی جب تک اس میں عوام، میڈیا، دانشور، مذہبی و سیاسی قائدین و کارکنان سمیت علماء کرام اپنے اپنے حصے کی کردار ادا نہ کریں۔ انسداد دہشت گردی کی مذکورہ مہم تب کامیابی سے ہمکنار ہوسکتی ہے کہ ہم یہ حقیقت بھی جان سکیں کہ دشمن ہمارے خلاف جو ہتھیار بڑی تیزی سے استعمال کررہا ہے وہ کلاشنکوف،بندوق،پستول،توپ،ٹینک یا میزائل نہیں۔بلکہ سفارت کاری،ٹی وی، ریڈیو،میڈیا،فلم اور معیشت ہیں۔یہ لڑائی زمین پر نہیں بلکہ لوگوں کے ذہنوں کے ذریعے لڑی جارہی ہے۔لوگوں کے جسم کو نہیں بلکہ ان کے ذہن کو شکار کیا جارہا ہے۔ اب یہ کھیل کھل کر کھیلا جارہا ہے کہ نوجوانوں کو اپنے ہی اداروں اور ملک کے بارے میں مایوس کیا جائے۔ ان سے نفرت کا اظہار کیا جائے اور ان کے بارے میں طرح طرح کے شکوک اور بدگمانیاں پیدا کی جائیں۔ خدارا الفاظ کو غلط جامہ نہ پہنائیں.