یہ بات قابل تشویش ہے کہ اگر ایک طرف خیبرپختونخوا کی حکومت وفاق اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سیاسی کشیدگی کے باعث پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کی پالیسی پر گامزن ہے تو دوسری جانب اس حکومت کو اندرونی اختلافات اور گروپ بندی کے علاوہ کرپشن کے شدید نوعیت کے الزامات کا بھی سامنا ہے ۔ عجیب بات تو یہ بھی ہے کہ یہ الزامات اپوزیشن کی بجائے صوبائی کابینہ اور حکمران جماعت کے اپنے ذمہ داران کی جانب سے لگائے گئے ہیں اور صوبائی حکومت کو اس صورتحال سے نکلنے کا کوئی طریقہ سمجھ میں نہیں آرہا ۔ بقول بیرسٹر محمد علی سیف بانی پی ٹی آئی نے بھی گزشتہ روز ان کے ساتھ جیل میں کی گئی ملاقات میں اس صورتحال پر کافی تشویش کا اظہار کیا ہے تاہم وہ یہ بتانے سے قاصر رہے کہ شکیل خان اور ان کے حامی جو کہہ رہے ہیں وہ درست ہے یا وزیر اعلیٰ اور صوبائی ترجمان کا موقف صحیح ہے ؟عاطف خان اور جنید اکبر خان جیسے سینئر لیڈرز شکیل خان کی حمایت کررہے ہیں اور بانی چیئرمین نے غالبًا ان کو ملاقات کے لیے طلب بھی کیا ہے ۔
اس تمام صورتحال کے تناظر میں ایک بات تو بلکل واضح ہوگئی ہے کہ اعلیٰ تقرریوں کی لین دین میں کروڑوں کی “بولیاں” لگائی جارہی ہیں اور اس گیم میں اعلیٰ شخصیات شامل ہیں تاہم افسوسناک امر تو یہ بھی ہے کہ کرپٹ بیوروکریٹس پر نہ تو کوئی ہاتھ ڈالنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور نہ ہی جنگ زدہ صوبے کے ان ” سانپوں” کو کسی کارروائی یا بدنامی کا کوئی خوف لاحق ہے ۔
اس تمام سلسلے کو دیکھتے ہوئے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ صوبے کو حکمران جماعت کے دعوؤں کے برعکس بدترین نوعیت کی بیڈ گورننس کے علاوہ بدترین کرپشن کا بھی سامنا ہے اور اس صورتحال نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے اقدامات کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے کیونکہ صوبائی حکومت ان مسائل میں پھنسی ہوئی ہے اور دوسری جانب وفاقی حکومت بھی لاتعلقی کی پالیسی پر گامزن ہے ۔