پاکستان کے قوم پرست حلقے ابتداء سے نظریاتی طور پر جہاد کے نام سے الرجک رہے ہیں اور اس مذہبی بیانیہ کو قوم پرست سیکولرزم اور ڈیموکریسی کی تھیوریز کے ذریعے مسترد کرتے رہے ہیں۔ اس کے ردعمل میں پرو جہاد حلقے نہ صرف قوم پرستوں کو مذہب بیزار اور سوویت بلاک سمیت مغرب کے پیروکار سمجھ کر ڈیل کرتے رہے بلکہ ان کو سال 1980 کے بعد تشدد اور حملوں کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا۔ اگر چہ پاکستان اور افغانستان کے قوم پرست ہندوستان پر حملے کرنے والے احمد شاہ ابدالی اور دیگر کو ہیرو سمجھتے ہیں اور ان کے حملوں ، فتوحات پر فخر کرتے ہیں تاہم یہ جدید دور کے دوران ان دو ممالک میں اسی فلسفے سے ملے جلے مذہبی یا جہادی طرزِ عمل کی کھل کر مخالفت کرتے ہوئے جہادی تنظیموں کے دشمن بنتے دیکھے گئے۔ اے این پی ، پی ایم اے پی ، پی ٹی ایم اور بعض دیگر پارٹیوں نے افغانستان کے مجاہدین سے لیکر افغان طالبان اور ٹی ٹی پی سمیت ہر جہادی قوت کی کھل کر مخالفت کی اور اس مخالفت کی مختلف ادوار میں بھاری قیمت بھی ادا کی۔
سال 1978 کے دوران جب قوم پرست حکمران سردار داؤد خان کے خلاف بغاوت کا آغاز ہوا اور اس کے نتیجے میں ان کو فیملی اور ساتھیوں سمیت بیدردی کے ساتھ قتل کیا گیا تو پاکستان کے تین اہم قوم پرست رہنماؤں باچا خان، خان عبدالولی خان اور عبدالصمد خان اچکزئی نے ثور انقلاب کے نام پر رونما ہونے والی اس سوویت نواز تبدیلی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس عمل کو افغانستان اور خطے میں ایک لمبی خانہ جنگی کی بنیاد قرار دیکر اس کی مخالفت کی تاہم انہی کی پارٹیوں کے اندر موجود سوشلسٹ اور کمیونسٹ لیڈروں نے اس انقلاب کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اس کشمکش میں یہ یہ پارٹیاں تقسیم بھی ہوتی رہیں۔ بعد میں جب سوویت اور امریکن بلاکس کی صف بندی کا مرحلہ از سر نو تشکیل پانے لگا تو سرد جنگ کے نظریاتی تناظر میں یہ لیڈرز بھی سوشلسٹ یہ نیشنلسٹ افغان حکمرانوں کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ اس صف بندی کے دوران چونکہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ امریکہ اور جہادی تنظیموں کی اتحادی تھی اس لیے پاکستان کے قوم پرست اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں ناپسندیدہ قرار پائے اور اس کشیدگی اور تلخی نے پاکستانی قوم پرست پارٹیوں کو مختلف ادوار میں جمہوری نظام یا اقتدار کا حصہ بننے سے روکنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔
چونکہ افغانستان کے جہادیوں اور طالبان وغیرہ کی اکثریت نسلی طور پر پشتون رہے اس لیے یہ دو طرفہ مخالفت مختلف ادوار میں کھلی جنگ میں تبدیل ہوتی نظر آئی ۔ خان عبدالولی خان ایک قد آور شخصیت تھے اور عالمی ، علاقائی تبدیلیوں پر ان کی گہری نظر رہا کرتی تھی تاہم جب افغانستان کے اندر 90 کی دہائی میں افغان طالبان کی شکل میں ایک نئی قوت سامنے آئی تو ولی خان اپنے جلسوں اور بیانات میں ان کی مخالفت کے علاوہ ان کا مذاق بھی اڑایا کرتے تھے۔ یہ رویہ ان کے بعد ان کے جانشینوں اور پارٹی میں بھی جاری رہا اور اب بھی ان کے ہاں یہ سلسلہ جاری ہے۔ اگر چہ ان کے مقابلے میں بلوچستان میں مقبولیت رکھنے والے قوم پرست لیڈر محمود خان اچکزئی کا رویہ نسبتاً اعتدال پسندی پر مشتمل رہا ہے اور وہ طالبان وغیرہ کی ان کی طرح کھلی مخالفت سے گریز کرتے آرہے ہیں تاہم پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ان کو پرو افغان لیڈر سمجھ کر مخالفین کی طرح ڈیل کرتی رہی ہے اور اے این پی کی طرح پختونخوا میپ پر بھی یہ الزامات لگائے جاتے رہے کہ یہ سیکولر افغان حکمرانوں سے پیسے لیتے ہیں۔ اسی طرح دیگر قوم پرست رہنماؤں افراسیاب خٹک ، مرحوم لطیف آفریدی ، افضل خان لا لا ، منظور پشتین ، محسن داوڑ ، علی وزیر ، ڈاکٹر سید عالم محسود اور متعدد دیگر بھی پاکستان کے طالبان وغیرہ کے علاوہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں بھی مخالفین کی فہرست میں شامل رہے۔ اسی مخالفت کے نتائج کے طور پر اے این پی کو متعدد اہم لیڈرز سمیت 1000 کے لگ بھگ کارکنوں کی جانوں کی قربانی دینی پڑی اور یہ تصادم تاحال جاری ہے ۔ محمود خان اچکزئی نے اے این پی کے برعکس اپنی پارٹی کو اس قسم کی کشیدگی اور نقصان سے بچاتے ہوئے نسبتاً بہتر حکمت عملی اختیار کی اور اسی کے تسلسل میں جب دوسرے مرحلے کے دوران دوحہ معاہدے کے تناظر میں افغان طالبان دوسری بار افغانستان پر قابض ہوگئے تو اے این پی کی کھلی مخالفت کے برعکس محمود خان اچکزئی اور ان کی پارٹی نے حقیقت پسندانہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے افغان طالبان کی مخالفت سے گریز کیا۔ ان کے برعکس اے این پی اور دیگر نے نہ صرف غیر معمولی اور غیر ضروری طور پر ٹی ٹی پی کی طرح افغان طالبان اور ان کی حکومت کی کھل کر مخالفت کی بلکہ وہ افغانیوں سے بھی دو قدم آگے بڑھتے ہوئے ڈاکٹر اشرف غنی کے دفاع کا کیس پاکستان میں رہتے ہوئے کرتے دکھائی دیے۔
ایک پیچیدہ علاقائی اور عالمی مسئلے کو ولی باغ کے ناتجربہ کار وارث ایمل ولی خان نے اپنی انا کا مسئلہ بناتے ہوئے ڈیل کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ پارٹی ایک بار پھر نہ صرف جہادی تنظیموں کی نظر میں دشمن قرار پائی گئی بلکہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے بھی اس تناظر میں اس پارٹی کو مخالفین کی فہرست میں شامل کردیا۔ اے این پی کا اس نازک عرصے کے دوران بیانیہ یہ رہا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اس کے بقول پھر چاہتی ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت اور کنٹرول ہو۔ ساتھ میں اس پارٹی نے یہ پروپیگنڈا بھی کیا کہ پاکستان کے سیکورٹی ادارے ٹی ٹی پی وغیرہ کو پھر سے سپورٹ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں حالانکہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد نہ صرف یہ کہ افغان عبوری حکومت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات انتہائی کشیدہ رہے بلکہ افغان حکومت کی سرپرستی میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے دو برسوں کے دوران پاکستان کی سیکورٹی فورسز پر 2000 سے زائد حملے کرکے سابقہ تمام ریکارڈز توڑ دیے اور پاکستانی ریاست کو بدترین صورتحال سے دوچار ہونا پڑا۔
سال 2024 کی انتخابی مہم کے دوران اے این پی اور بعض دیگر نے پاکستان اور اپنے زیر اثر پشتون علاقوں کے ایشوز سے زیادہ افغانستان کے اندورنی معاملات اور ٹی ٹی پی کی مخالفت پر بحث کی۔ تاہم اس کا نتیجہ الٹا نکل آیا اور عوام کے علاوہ اس پارٹی کے ایک قابل ذکر حلقے میں بھی یہ خدشہ سر اٹھانے لگا کہ اگر یہ پارٹی اپنے دعوؤں کے مطابق ایک بار پھر صوبے کے اندر اقتدار میں آتی ہے تو طالبان وغیرہ 2008 کے بعد کی طرح صوبے کو پھر سے حملوں کا نشانہ بنانے نکل آئیں گے اور یوں عوام ایک بار پھر بھی ماضی کی طرح رل جائیں گے۔ طالبان بھی وقتاً فوقتاً اس طرح کے اشارے دیتے رہے کہ اگر اے این پی اور پیپلز پارٹی اقتدار میں آتی ہیں تو ان کے ساتھ پرانا والا سلوک کیا جائے گا۔ اس صورتحال کے علاوہ اے این پی نے انتخابی مہم کے دوران ان ایشوز پر بحث کرتے ہوئے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو حسب عادت غیر معمولی تنقید کا نشانہ بنایا اور الزامات لگائے جاتے رہے کہ پاکستانی ریاست پرو طالبان قوتوں پر مشتمل کوئی حکومت صوبے میں لانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس مہم میں اے این پی اور بعض دیگر نے جے یو آئی ف اور پاکستان تحریک انصاف کی بھی کھل کر غیر ضروری مخالفت شروع کردی اور پارٹی قیادت کا خیال تھا کہ عوام دہشت گردی اور افغانستان کے معاملات پر اس پارٹی کے بیانیہ کو قبولیت دیں گے تاہم یہ تمام تجزیے غلط ثابت ہوگئے اور عوام نے ایک بار پھر صوبے میں عمران خان کی پارٹی کو ووٹ دیکر کامیاب کردیا۔ حالت یہ رہی کہ اے این پی کا کوئی ایک بھی لیڈر یا امیدوار قومی اسمبلی کا ممبر نہیں بن سکا اور صوبائی اسمبلی میں بھی اس پارٹی کو محض ایک سیٹ ملی ۔ اس کے مقابلے میں محمود خان اچکزئی نہ صرف قومی اسمبلی میں پہنچ گئے بلکہ انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے خود کو صدارتی امیدوار بناتے ہوئے قومی منظر نامہ میں غیر متوقع طور پر داخل کردیا اور ماہرین یہ کہتے پائے گئے کہ وہ مستقبل کے نئے منظر نامہ میں اہم کردار اور کھلاڑی کے طور پر موجود رہیں گے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اے این پی نے تمام تر بحث سے قطع نظر نہ صرف یہ کہ امن کے قیام کے نام پر سب سے زیادہ قربانیاں دیں اور سوات جیسا کامیاب آپریشن کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا تاہم اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ عوام کی اکثریت نے بھی اس پارٹی کے بیانیہ کو انتخابات کے دوران کوئی خاص پذیرائی نہیں بخشی اور اس کا اندازہ سال گزشتہ تین انتخابات کے نتائج سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور سال 2013 کے الیکشن میں اے این پی کو دیگر علاقے تو ایک طرف سوات میں بھی تحریک انصاف کے ہاتھوں بدترین شکست ہوئی حالانکہ اس پارٹی کی حکومت نے نہ صرف سوات میں امن قائم کیا تھا بلکہ علاقے کی تعمیر وترقی پر بھی توجہ دی تھی ۔ اسی طرح سال 2024 کے انتخابات میں بھی سوات کی تمام سیٹیں تحریک انصاف لے اڑی اور یہ صورت حال پورے صوبے میں نظر آئی ۔ اس ضمن میں پشاور جیسے مرکزی شہر کی مثال دی جاسکتی ہے جہاں دہشت گردی کی جنگ میں دو لیڈروں بشیر احمد بلور اور ہارون بلور سمیت سینکڑوں کارکنوں کی قربانیاں دینے والی پارٹی کے دو اہم امیدواروں یعنی حاجی غلام احمد بلور اور بشیر احمد بلور کی بہو ثمر ہارون بلور کو تحریک انصاف کے عام امیدواروں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا ۔ اس کا مطلب یہ لیا گیا کہ امن کے نام پر سیاست کرنے والی پارٹیز کو نہ تو اس تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی عام عوام اور ووٹرز میں ان کی قربانیاں کوئی خاص اہمیت یا دلچسپی رکھتی ہیں۔
خیبرپختونخوا میں ایسی ہی صورتحال کا دوسری طالبان مخالف سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کو بھی سامنا کرنا پڑا جبکہ اب کے بار بعض دیگر کے علاوہ اس بیانیہ کے تناظر میں نوجوان نسل میں مقبول لیڈروں محسن داوڑ اور علی وزیر کو بھی شکست سے دوچار ہونا پڑا ۔ اگر چہ یہ تمام پارٹیاں انتخابی نتائج کے بعد یہ الزام لگاتی نظر آئیں کہ ان کو ایک پالیسی کے تحت ہرایا گیا ہے اور اس الزام کو کلی طور پر نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا تاہم اس تلخ حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ قوم پرستوں کا اینٹی طالبان بیانیہ نے ان کی راہ میں بڑی رکاوٹ کی شکل اختیار کرلی ہے اپر سے اسٹیبلشمنٹ کی ناپسندیدگی بھی ایک بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آتی رہی ہے اور تیسرے مسئلہ کے طور پر عمران خان کی صورت میں ایک مقبول مگر پرو جہاد لیڈر کی پشتون بیلٹ میں مقبولیت کے فیکٹر نے بھی متعدد مسائل پیدا کردیے ہیں۔ اس تمام تر صورت حال کے تناظر میں افغانستان میں طالبان کی حکومت اور اس کی سرپرستی میں ٹی ٹی پی کی فعالیت جیسے عوامل کی بنیاد پر خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ پاکستان کے قوم پرستوں خصوصاً پشتون قوم پرستوں کا کردار اور مستقبل متعدد سوالات اور چیلنجز کی لپیٹ میں ہے اور اگر یہ صورت حال اسی طرح جاری رہی تو اس کے نتیجے میں بعض دیگر پیچیدگیاں جنم لیں گی۔